Tafseer-e-Mazhari - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون . مسلمان تو سب بھائی ہیں۔ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ: یعنی تمام مؤمنوں کی اصل ایک ہے یعنی سب کی (مشترک) اصل ایمان ہے اور ایمان ہی حیات ابدی کا موجب ہے۔ اس لیے تمام اہل ایمان بھائی ‘ بھائی ہیں اور چونکہ اس اصل کی پیدائش گاہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے اس لیے آپ ﷺ تمام مؤمنوں کے باپ اور آپ ﷺ کی بیبیاں تمام مسلمانوں کی مائیں قرار پائیں۔ بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ : تثنیہ کا صیغہ (دو بھائی) خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا کہ اختلاف کم سے کم دو آدمیوں میں ہوتا ہے (اس سے زائد کی نفی نہیں ہوتی) ۔ وَاتَّقُوا اللہ : اور اللہ سے ڈرتے رہو یعنی اس کے حکم کے خلاف نہ کرو۔ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ : یعنی اس امید پر تقویٰ پر قائم رہو کہ تم پر رحم کیا جائے گا کیونکہ باہم اتحاد ‘ الفت ‘ محبت اور آپس میں رحم کرنے کا سبب تقویٰ ہے اور آپس کی محبت و تراحم اللہ کی رحمت کا موجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔ (رواہ المجدد) صحیحین میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ‘ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔ یہ روایت حضرت جریر بن عبداللہ کی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنائی تو سب مسلمانوں نے باہم صلح کرلی اور ہر شخص دو سرے کے ساتھ لڑنے سے رک گیا۔ سعید بن منصور اور ابن جریر نے حضرت ابو مالک کی روایت سے بیان کیا ہے کہ دو مسلمانوں میں باہم گالی گلوچ ہوگئی ‘ جس کی وجہ سے ہر ایک کا قبیلہ دوسرے پر بھڑک اٹھا اور ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ شروع ہوگئی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شاید یہ قصہ بعینہٖ اسی واقعہ کا بیان ہے جو اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم نیز بغوی نے سدی کا بیان نقل کیا ہے۔ ایک انصاری تھے جن کو عمرانی کہا جاتا تھا ‘ ان کی بیوی ام زید نے اپنے میکے جانے کا ارادہ کیا۔ شوہر نے روک دیا اور ایک بالا خانہ پر عورت کو رکھ دیا۔ عورت نے اپنے میکے کو خبر کردی۔ وہاں سے اس کے قبیلہ والے آگئے اور عورت کو بالا خانے سے نیچے اتار کرلے جانے لگے۔ شوہر باہر گیا ہوا تھا ‘ اس نے اپنے کنبے والوں سے مدد طلب کی۔ اس کے چچا کے بیٹے آگئے اور عورت کو لے جانے میں مزاحمت کی۔ آخر دونوں فریقوں میں دھکم دھکا ہونے لگی اور جوتوں سے لڑائی شروع ہوگئی۔ انہیں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے کسی کو بھیج کر ان میں صلح کرا دی اور سب اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ ابن جریر اور بغوی نے ذکر کیا کہ قتادہ نے فرمایا : ہم سے بیان کیا گیا تھا کہ اس آیت کا نزول دو انصاریوں کے حق میں ہوا۔ دونوں میں کسی حق کی بابت اختلاف تھا۔ آخر نوبت دھکم دھکا ‘ ہاتھا پائی اور جوتہ بازی تک پہنچ گئی لیکن تلوار کی لڑائی نہیں ہوئی۔ ابن جریر نے حسن کا بیان نقل کیا ہے کہ دو قبیلوں میں کچھ جھگڑا تھا۔ (رسول اللہ ﷺ نے) ان کو (شرعی) حکم کی طرف بلایا لیکن وہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔ آخر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حسن کی یہ روایت شاید اسی واقعہ کا بیان ہے جو قتادہ نے بیان کیا ہے۔ بغوی وغیرہ نے بوساطت سالم بیان کیا کہ سالم کے والد یعنی حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مسلمان ‘ مسلمان کا بھائی ہے۔ اس کی حق تلفی نہ کرے ‘ نہ گالی دے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت (پوری کرنے) میں لگا رہتا ہے۔ اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سختی دور کرتا ہے اللہ روز قیامت کی سختیوں میں سے کوئی سختی دور کر دے گا ‘ اس لئے جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان ‘ مسلمان کا بھائی ہے۔ اس پر ظلم نہ کرے ‘ اس کو بےمدد نہ چھوڑے اور اس کی تحقیر نہ کرے۔ سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : تقویٰ یہاں ہوتا ہے ‘ آدمی کے لیے یہ شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے۔ اس کا خون بھی ‘ اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔ دونوں آیتیں دلالت کر رہی ہیں کہ باغی گروہ (دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اِس) پر مؤمن کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اسی پر دلالت کرتا ہے وہ اثر جو حارث اعور نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا کہ جنگ جمل اور صفین میں جو لوگ آپ کے مقابل تھے کیا وہ مشرک تھے ؟ فرمایا : نہیں ! شرک سے تو وہ بھاگ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ سوال کیا گیا : تو کیا وہ منافق تھے ؟ فرمایا : نہیں ! منافق تو اللہ کو یاد نہیں کرتے۔ عرض کیا گیا : تو پھر وہ کون تھے ؟ فرمایا : وہ ہمارے بھائی تھے ‘ جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تھی۔ مسئلہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ امام (خلیفہ) کے خلاف جمع ہوجائے اور اس کے پاس اجتماعی قوت اور لڑنے والی طاقت بھی ہو تو خلیفہ کو چاہیے کہ اوّل اس کو اطاعت کی دعوت دے اور اس کے اعتراضات دور کر دے پھر اگر وہ کوئی ایسی وجہ ظاہر کریں جس کی وجہ سے انہوں نے امام کے خلاف صف آرائی کی ہے۔ مثلاً امام نے ان پر یا ان کے علاوہ دوسروں پر کچھ ظلم کیا ہو تو ایسے لوگوں سے جنگ کرنی امام کے لیے جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے علم بر 1 دران بغاوت کی مدد کریں تاکہ امام ان کے ساتھ انصاف کرے اور ظلم سے باز آجائے۔ (کذا قال ابن الہمام) لیکن بغاوت کو جائز قرار دینے والی کوئی معقول وجہ وہ ظاہر نہ کرسکیں اور لڑنے کے لیے جتھے بند ہوجائیں تو امام کے لیے ان کو قتل کرنا اور ان سے لڑنا جائز ہے۔ (ہذا قول ابی حنیفہ (رح) امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ جب تک وہ خود جنگ شروع نہ کریں ‘ انکو قتل کرنا جائز نہیں۔ مسلمانوں کو قتل کرنا صرف دفاعی صورت میں جائز ہے اور وہ مسلمان ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا . امام احمد ‘ امام مالک اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لغت میں بَغٰی کا معنی ہے طلب کرنا۔ اللہ نے فرمایا ہے : ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِیْ (یہی وہ ہے جس کے ہم طلبگار تھے) اس جگہ بَغٰی سے مراد ہے ‘ ان چیزوں کی طلب جو انتظام (اور امن و انصاف) میں مخل ہو۔ جیسے جور ‘ ظلم ‘ احکام شرع کو قبول کرنے سے انکار۔ اس طرح دوسری آیات میں آیا ہے : فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً . اگر وہ عورتیں تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کسی طرح کی راہ ظلم تلاش نہ کرو۔ اس لیے مذکورۂ بالا باغیوں سے قتال کرنے کے لیے یہ شرط ضروری نہیں کہ ابتداء قتال باغیوں کی طرف سے ہو۔ رہی یہ بات کہ باغیوں کے پاس فوج اور قوت جنگ ہونا ضروری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس عسکری طاقت نہ ہو تو پھر ان سے جنگ کرنی غیر ضروری ہے۔ ہم ان کو قید کرسکتے ہیں اور ان کو مار سکتے ہیں۔ اگر ہم جواز قتال کے لیے یہ شرط لازم قرار دیں کہ ابتداء جنگ باغیوں کی طرف سے ہو تو ممکن ہے کہ آئندہ ان کی قوت اتنی بڑھ جائے کہ ہم ان کا دفاع ہی نہ کرسکیں۔ مسئلہ اگر باغیوں کا ایک گروہ ہو تو زخمی باغی پر حملہ کیا جائے (کہ وہ مرجائے) اور جو باغی منہ پھیر کر بھاگ رہا ہو ‘ اس کا پیچھا کیا جائے تاکہ وہ اپنی جماعت سے جا کر مل نہ جائے۔ امام شافعی ‘ امام مالک اور امام احمد کا قول ہے کہ زخمی باغی پر حملہ نہ کیا جائے ‘ نہ بھاگتے ہوئے کا تعاقب کیا جائے کیونکہ جب ان دونوں نے مسلمانوں سے لڑنا چھوڑ دیا تو اب ان کا قتل دفاعی نہیں رہا اور دفاعِ شر کے لیے ہی انکے قتل کا جواز تھا۔ ابن ابی شیبہ نے عبد خیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے دن فرمایا : پشت پھیر کر بھاگتے ہوئے کا تعاقب نہ کرنا اور جو ہتھیار ڈال دے ‘ اس پر حملہ نہ کرنا وہ امن یافتہ ہے۔ یہ جملہ بھی روایت میں آیا ہے کہ قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔ ہم کہتے ہیں یہ (زخمی ‘ باغی اور پشت پھیر کر بھاگنے والے) جب اپنے گروہ سے جا کر مل جائیں گے تو شر کا اندیشہ بہرحال باقی رہے گا۔ رہا اہل جمل کے متعلق حضرت علی کا حکم تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جمل والوں کا کوئی (مرکزی) گروہ (کہیں) جمع نہیں تھا۔ حاکم نے مستدرک میں اور بزار نے مسند میں بتوسط کوثر بن حکیم بروایت نافع از ابن عمر ؓ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابن ام عبد ! کیا تم کو معلوم ہے کہ اس امت میں سے اگر کوئی بغاوت کرے تو اللہ نے اس کے متعلق کیا حکم دیا ہے ؟ ابن عمر ؓ نے جواب دیا : اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا : زخمی پر حملہ نہ کرو ‘ قیدی کو قتل نہ کیا جائے ‘ اس کے مال کو غنیمت سمجھ کر تقسیم نہ کیا جائے۔ کوثر بن حکیم کی وجہ سے اس روایت کو بزار نے معلل قرار دیا ہے اور ذہبی نے حاکم پر (اس روایت کی وجہ سے) گرفت کی ہے۔ (شاید سہو مفسر یا کسی راوی کی چوک کی وجہ سے بجائے ابن مسعود کے ابن عمر کے حوالہ سے یہ حدیث بیان کی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالحقیقۃ۔ مترجم) مسئلہ علماء کا بالاجماع فیصلہ ہے کہ باغی کے بیوی ‘ بچوں کو باندی غلام نہ بنایا جائے۔ نہ اس کے مال و متاع کو تقسیم کیا جائے بلکہ مال کو قرق کرلیا جائے اور جب تک وہ توبہ نہ کرے ‘ مال کو روکے رکھا جائے۔ ابن ابی شیبہ کا بیان ہے کہ جب حضرت علی ؓ نے حضرت طلحہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کو شکست دے دی تو ایک نداء دینے والے کو حکم دیا۔ اس نے نداء کردی کہ اب نہ سامنے سے آنے والے کو قتل کیا جائے ‘ نہ پشت پھیرنے والے کو۔ یعنی شکست دینے کے بعد یہ منادی کرا دی۔ کسی کا دروازہ نہ کھلوایا جائے اور کسی کی شرم گاہ کو حلال نہ سمجھا جائے ‘ نہ کسی کے مال کو (مال غنیمت سمجھ کر حلال سمجھا جائے) عبدالرزاق نے اس روایت میں اتنا زائد بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ زخمی مقتول (باغی) کا مال نہیں لیتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص (مقتول کے مال میں سے) کوئی چیز اپنی شناخت کرلے ‘ وہ لے لے۔ تاریخ واسط میں آیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے دن فرمایا : پشت پھیرنے والے کا پیچھا نہ کرو اور کسی زخمی پر (اس کو قتل کردینے کے ارادہ سے) سخت حملہ نہ کرو اور کسی قیدی کو قتل نہ کرو اور (باغیوں کی) عورتوں سے الگ رہو خواہ وہ تم کو سخت سست کہیں اور تمہارے حاکموں کو گالیاں ہی دیں۔ مسئلہ اگر باغیوں سے چھینے ہوئے ہتھیاروں کے ذریعہ سے باغیوں سے لڑنے کی ضرورت ہو تو امام کے طرفداروں کو ان ہتھیاروں سے کام لینا جائز ہے ‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح باغیوں کی سواریوں پر سوار ہو کر بھی باغیوں سے جنگ کی جاسکتی ہے۔ امام شافعی ‘ امام مالک (رح) اور امام احمد کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ ان بزرگوں کے نزدیک باغیوں کے ہتھیاروں اور سواریوں کا استعمال ناجائز ہے۔ ہمارے قول کی دلیل وہ روایت ہے جو ابن ابی شیبہ نے مصنف کے آخر میں بیان کی ہے کہ جمل میں اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر باغی آئے تھے اور جو ہتھیار انہوں نے استعمال کیے۔ حضرت علی ؓ نے (باغیوں کی شکست کے بعد) وہ اپنے لشکر کو تقسیم کردیئے تھے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے : یہ تقسیم استعمال کرنے کے لیے تھی ‘ مالک بنانے کے لیے نہیں تھی کیونکہ باتفاق علماء باغیوں کے مال کا (فاتح لشکر یا خلیفہ) مالک نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ باغیوں نے دوران جنگ وفاداران امام کا جو جانی و مالی نقصان کردیا ہو اور اس کی کوئی وجہ شرعی (باغیوں کے خیال میں) ہو اور ان کے پاس (فوجی و انتظامی) طاقت بھی ہو تو امام مالک ‘ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی کا (آخری راجح) قول نیز امام محمد کا ایک قول یہ ہے کہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں ہوگا۔ شافعی (رح) اور احمد کا دوسرا قول اس کے خلاف ہے۔ ابن شہاب زہری نے لکھا ہے کہ اس فتنہ میں بڑی خونریزی ہوئی ‘ جس میں بعض موقعوں پر قاتل اور مقتول کی شناخت بھی ہوگئی اور بکثرت مال بھی ضائع ہوا۔ لیکن جب لڑائی ختم ہوگئی اور فتنہ ٹھنڈا پڑگیا اور باغیوں پر خلیفہ کا اقتدار ہوگیا تو میں نہیں جانتا کہ کسی سے قصاص لیا گیا ہو یا کسی سے تلف شدہ مال کا تاوان وصول کیا گیا ہو۔ مسئلہ اگر کسی باغی نے امام کے کسی وفادار کو قتل کردیا اور وہ مدعی ہے کہ میں نے یہ قتل ٹھیک کیا اور میرا یہ فعل برحق ہے تو قاتل مقتول کا وارث ہوگا اور اگر وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا ہے تو وارث نہ ہوگا اور اگر امام کا کوئی وفادار کسی باغی کو قتل کر دے تو باجماع علماء قاتل ‘ مقتول کا وارث ہوسکتا ہے۔ مسئلہ اطاعت امام سے خارج ہونے والوں کے پاس (ان کے خیال میں بھی) لوگوں کو قتل کرنے ‘ رہزنی کرنے اور مال لوٹنے کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو تو ان کے پاس خواہ فوجی طاقت ہو ‘ مگر رہزن اور ڈاکو قرار دیا جائے گا۔ ان کا حکم سورة مائدہ میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان کو قتل کیا جائے اور صلیب پر لٹکایا جائے یا ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور بستی سے نکال دیا جائے۔ مسئلہ ا طاعت امام سے سرکشی کرنے والے کے پاس اگر فوجی اور انتظامی طاقت نہ ہو تو مطابق حکم خدا اس کو قید کردیا جائے۔ جسمانی مار لگائی جائے اور اس طرح کی دوسری سزا دی جائے مگر قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے سنا کوئی شخص مسجد کے گوشہ میں کہہ رہا تھا : لَا حُکْمَ الاَِّ ﷲِ .(اللہ کے سوا کسی کا حکم جائز نہیں) فرمایا : بات تو سچی ہے لیکن اس کا مطلب غلط نکالا گیا ہے۔ تمہارے ہم پر تین حق ہیں : مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے (یعنی نماز پڑھنے) سے ہم تم کو نہیں روکیں گے ‘ جب تک تمہارے ہاتھ ہمارے ہاتھوں کے ساتھ ہوں گے (یعنی جب تک تم ہمارے وفادار ہو گے) ہم مال غنیمت میں حصہ دار ہونے سے تم کو نہیں روکیں گے ہم تم سے لڑنے (اور تم کو قتل کرنے) کی ابتداء نہیں کریں گے۔ محمد (رح) نے کہا ہم کو بھی حضرت علی کا یہ اثر اسی طرح پہنچا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ حضرت ثابت ؓ بن قیس کے کانوں میں کچھ گرانی تھی (یعنی گرانگوش اور بہرے تھے) جب رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور پہلے سے لوگ وہاں بیٹھے ہوئے ہوتے (اور جگہ تنگ ہوتی) تو لوگ آپ کو (آگے) جگہ دے دیتے تھے تاکہ آپ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سن سکیں۔ ایک روز آپ فجر کی نماز میں اس وقت آئے جب ایک رکعت ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز ختم کی تو صحابہ کرام ؓ جگہ کی تنگی کی وجہ سے اپنے ‘ اپنے مقام پر جم کر بیٹھے رہے۔ مجلس اتنی تنگ تھی کہ کوئی (خود سمٹ کر) دوسرے کے لیے گنجائش نکال نہیں سکتا تھا۔ آنے والے کو جب بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تھی تو وہ کھڑا رہتا تھا۔ حضرت ثابت ؓ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی طرف کو بڑھے اور لوگوں سے فرمایا : جگہ دو ‘ گنجائش کرو۔ لوگ آپ کو دیکھ کر سمٹنے اور گنجائش دینے لگے۔ اس طرح آپ ؓ رسول اللہ ﷺ کے قریب تک پہنچ گئے۔ آپ کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف ایک آدمی رہ گیا۔ حضرت ثابت ؓ نے اس سے بھی فرمایا : مجھے جگہ دے۔ اس شخص نے کہا : آپ کو جگہ تو مل گئی ‘ یہیں بیٹھ جائیے۔ حضرت ثابت ؓ اس آدمی کے پیچھے غصہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ بات آپ کو کھلی بہت ‘ جب تاریکی چھٹ گئی اور روشنی ہوگئی تو ثابت ؓ نے اس شخص کو دبایا اور پوچھا : یہ کون شخص ہے ؟ اس نے کہا : میں فلاں شخص ہوں۔ ثابت ؓ نے کہا : فلاں عورت کا بیٹا۔ حضرت ثابت ؓ نے اس شخص کے وہ (مادری) عیوب بیان کیے جو جاہلیت کے زمانہ میں طنزیہ طور پر اس کے لیے کہے جاتے تھے۔ اس شخص نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top