بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے
یا ایھا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ واتقوا اللہ ان اللہ سمیع علیم . اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اجازت سے پہلے تم سبقت مت کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ بیشک اللہ تمہارے اقوال کو سننے والا اور تمہارے اعمال کو جاننے والا ہے۔ لَا تُقَدِّمُوْا : بعض اہل علم نے کہا : لَا تُقَدِّمُوْا فعل متعدی ہے اور مفعول محذوف ہے۔ مفعول اگر ذکر کیا جاتا تو محدود ہوجاتا اور مقصود تھا عموم۔ مفعول یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے پیش دستی نہ کرو۔ نہ قول میں ‘ نہ فعل میں یا مفعول بالکل متروک ہے اور فعل متعدی کو بجائے لازم کے ذکر کیا یعنی تمہاری جانب سے پیش قدمی نہ ہو۔ بَیْنَ یَدَیْ : (دونوں ہاتھوں کے درمیان) بطور استعارہ اس مسافت کو کہتے ہیں جو دو متقابل جہتوں یعنی دائیں بائیں جہتوں کے درمیان قریب ہی ہو۔ آیت میں تقدم زمانی کو تقدّم مکانی سے تشبیہ دی گئی ہے (اور تقدّم مکانی کا لفظ بول کر تقدّم زمانی مراد لیا ہے) یعنی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان سے پہلے اپنا فیصلہ نہ کرو ‘ نہ قولی نہ فعلی۔ ضحاک نے کہا : یعنی جہاد اور قوانین دین کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے پہلے فیصلہ نہ کرو۔ ابو عبیدہ نے کہا : عرب کہتے ہیں : لا تقدم بین یدی الامام ...... لا تقدم بین یدی الاب . یعنی حکم دینے ‘ ممانعت کرنے اور جھڑکنے میں حاکم اور باپ سے عجلت نہ کرو۔ بعض اہل علم نے کہا کہ اصل مقصد ہے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے پیش دستی کرنے کی ممانعت۔ اللہ کا ذکر رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے اور اس بات کی طرف ایماء کرنا مقصود ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ پر تقدیم گویا اللہ پر تقدیم ہے۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک آپ ﷺ کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم اللہ کی تعظیم اور آپ ﷺ سے بےادبی کرنی اللہ سے بےادبی کرنی ہے۔ اسی مضمون کو آیت : (اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہ یَدُ اللہ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ) میں بیان کیا گیا۔ ابن المنذر نے حسن کا بیان نقل کیا ہے کہ قربانی کے دن کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پہلے قربانی کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ دوبارہ قربانی کریں۔ اس پر آیت نازل ہوئی۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں یہ روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ نماز سے پہلے انہوں نے قربانی کی تھی ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت براء بن عازب کا بیان ہے کہ قربانی کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطاب کیا اور فرمایا : آج سب سے پہلے ہم نماز ادا کریں پھر واپس آکر قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہمارے طریقہ کو پا لیا اور جس نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی تو یہ (قربانی نہیں بلکہ) معمولی گوشت ہے جو گھر والوں کے لیے اس نے پہلے سے تیار کرلیا ہے۔ قربانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (متفق علیہ) حضرت جندب بن عبد اللہ ؓ : کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ قربانی کے دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا پھر قربانی کی پھر فرمایا : جس نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی وہ اسکی جگہ اور قربانی کرے۔ (متفق علیہ) احادیث مذکورہ کی روشنی میں امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک اور امام محمد (رح) نے فرمایا کہ امام کی نماز سے پہلے قربانی کرنی جائز نہیں۔ امام شافعی (رح) کا قول اس سے مختلف ہے۔ آپ (رح) نے فرمایا : قربانی کے دن طلوع آفتاب کے بعد جب اتنا وقت گزر جائے کہ امام نماز اور دونوں خطبوں سے فارغ ہو سکے تو قربانی کرنی جائز ہے خواہ امام نے نماز اس وقت تک پڑھی یا نہ پڑھی ہو۔ عطاء نے کہا : طلوع آفتاب کے بعد ہی فوراً قربانی جائز ہوجاتی ہے۔ امام شافعی اور عطاء کے قول کے خلاف احادیث مذکورہ صراحت کر رہی ہیں۔ امام مالک (رح) نے جو فرمایا کہ نماز اور امام کی قربانی سے پہلے قربانی کرنی جائز نہیں۔ مذکورہ بالا دونوں حدیثوں سے اس قول پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ شاید امام مالک (رح) نے اپنے اس قول کا مآخذ آیت : (لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہ وَ رَسُوْلِہٖ ) کو قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانی کرنے سے پہلے قربانی نہ کرو اور امام رسول اللہ ﷺ کا نائب ہے۔ (لہٰذا امام کی قربانی سے پہلے قربانی کرنی جائز نہیں) ۔ ہم کہتے ہیں حدیث آیت کا بیان ہے لہٰذا حدیث سے جو شر ط مستفاد نہیں ‘ وہ نہیں لگائی جاسکتی۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : دیہات میں چونکہ عید کی نماز نہیں پڑھی جاتی اس لیے فجرصادق کے طلوع کے بعد قربانی کرنی جائز ہے ‘ باقی تینوں اماموں کا قول اس کے خلاف ہے۔ امام احمد (رح) نے فرمایا : جب تک امام کے نماز پڑھ چکنے کا یقین نہ ہوجائے ‘ دیہات میں قربانی ناجائز ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک جب تک امام کی قربانی اور نماز ہو چکنے کا یقین نہ ہوجائے ‘ اس وقت تک دیہات میں قربانی نہیں ہوسکتی۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : جب تک طلوع آفتاب کے بعد نماز ادا کرنے اور دونوں خطبوں سے فارغ ہوجانے کے بقدر وقت نہ گزر جائے دیہات میں قربانی جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی دلیل یہ ہے کہ نماز سے قربانی کو مؤخر کرنے کے حکم کی وجہ یہ ہے کہ اگر نماز سے پہلے قربانی کی جائے گی تو ممکن ہے کہ قربانی میں مشغول ہونے کی وجہ سے نماز سے کچھ غفلت ہوجائے لیکن دیہات میں چونکہ عید کی نماز ہی نہیں ہے ‘ اس لیے قربانی کی تاخیر کی کوئی مصلحت ہی نہیں۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ ماہ رمضان شرو ع ہونے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے روزے رکھنے سے بھی اوّل روزے رکھ لیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ نے آیت : (لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہ وَ رَسُوْلِہٖ ) نازل فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : رمضان شروع ہونے سے دو ایک روز پہلے روزے رکھنے نہ شروع کردیا کرو۔ ہاں ! وہ شخص رمضان سے دو ‘ ایک روز پہلے روزہ رکھ سکتا ہے جو برابر روزے رکھتا چلا آیا ہو۔ رواہ اصحاب الصحاح والسنن الستۃ۔ اصحاب السنن الاربعہ نے حضرت عمار ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے اور بخاری نے تعلیقاً نقل کیا ہے کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی مخالفت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : چاند دیکھنے پر روزہ کھولو اور چاند دیکھنے پر روزہ رکھنا ترک کر دو اگر (اَبر وغیرہ کی وجہ سے) چاند تم کو دکھائی نہ دے تو تیس دن کی گنتی پوری کرلو۔ (صحیحین) ابو داؤد اور ترمذی کی روایت جس کو ترمذی نے حسن کہا ہے ‘ اس طرح ہے اگر تمہارے اور چاند کے درمیان بادل حائل ہوجائیں تو تیس کی گنتی پوری کرلو اور مہینہ شروع ہونے سے پہلے روزہ نہ رکھو۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ قتادہ نے فرمایا : ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ کہتے تھے کاش فلاں فلاں معاملہ میں کچھ حکم نازل کردیا جاتا۔ اس پر آیت : (لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہ وَ رَسُوْلِہٖ ) نازل فرمائی۔ وَاتَّقُوا اللہ : یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی حق تلفی نہ کرو۔ اِنَّ اللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ : اللہ تمہارے اقوال کو سنتا اور تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔
Top