Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے تو عقل والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو
قل لا یستوی الخبیث والطیب ناپاک اور پاک برابر نہیں۔ الفاظ کا عموم دلالت کر رہا ہے کہ اللہ کے نزدیک برا اچھا برابر نہیں خواہ برے اور کھرے آدمی ہوں یا اعمال۔ اس فقرہ میں اچھے عمل اور حلال مال کی ترغیب دی گئی ہے۔ ولو اعجبک کثرۃ الخبیث اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہارے دل کو لبھائے۔ اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی بےدلی کے زیادہ عمل سے بہتر ہوتا ہے اور تھوڑا حلال مال راہ خدا میں خرچ کرنا ‘ زیادہ حرام مال خرچ کرنے سے افضل ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے چھوارے کا ایک ٹکڑا (پاک کمائی کا) خیرات کیا اور اللہ پاک (مال) کو ہی قبول کرتا ہے تو اللہ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کو لیتا ہے اور اس کو بڑھاتا چلا جاتا ہے جیسے تم لوگ اپنے بکری کے بچہ (پر ہاتھ پھیر کر اس) کو بڑھاتے ہو ‘ یہاں تک کہ وہ چھوارے کا ٹکڑا پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ متفق علیہ اور مخلص نیکوکار (خواہ تھوڑے ہوں) زمین بھر بدکاروں سے اللہ کے نزدیک بہتر ہیں۔ حضرت سہل بن سعد راوی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ : کی طرف سے گزرا۔ حضور ﷺ کے پاس اس وقت ایک آدمی اور بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا اس (گزرنے والے) آدمی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے اس شخص نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص شریف لوگوں میں سے ہے اس قابل ہے کہ اگر کہیں اپنے نکاح کا پیام بھیجے تو اس کا پیام قبول کرلیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے۔ رسول اللہ ﷺ یہ کلام سن کر خاموش رہے اتنے میں ایک اور آدمی ادھر سے گزرا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔ صحابی ؓ نے عرض کیا حضور ! یہ تو ایک غریب مسلمان ہے بس اس قابل ہے کہ اگر کہیں نکاح کی درخواست بھیجے تو قبول نہ کی جائے اور سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی نہ جائے اور اگر کچھ کہے تو اس کی بات سنی نہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ شخص اس جیسے زمین بھر لوگوں سے بہتر ہے۔ متفق علیہ۔ فاتقوا اللہ پس اللہ سے تقویٰ رکھو۔ تاکہ اللہ کے نزدیک تمہارا شمار پاک لوگوں میں ہوجائے اور پاک عمل و مال کو خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو ناپاک کے مقابلہ میں (خواہ کتنا ہی زائد ہو) اختیار کرو۔ بغوی نے لکھا ہے فاتقوا اللّٰہ کا مطلب (اس جگہ) یہ ہے کہ حاجیوں (کے جان مال) سے کچھ تعرض نہ کرو خواہ وہ حاجی مشرک ہی ہوں (فتح مکہ سے پہلے مشرک بھی کعبہ کا حج کرنے آتے تھے) شریح کا قصہ شروع سورت میں گزر چکا ہے۔ یا اولی الالباب اے دانشمندو ! یعنی اے صحیح عقل والو۔ لعلکم تفلحون اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ یعنی تقویٰ کی وجہ سے کامیاب ہونے کی امید کرتے ہوئے (اللہ کا تو کوئی فعل امید کے زیر اثر نہیں ہوسکتا کیونکہ امید غیر یقینی حالت میں ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی عمل قطعی اور یقینی نتیجہ سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لئے قرآن مجید میں جہاں لفظ لعلّآیا ہے اس سے پیدا ہونے والی امید کا رجوع اللہ کی طرف نہیں ہوتا بلکہ بندہ کی طرف ہوتا ہے اسی لئے مفسر رحمۃ اللہ نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا کہ اللہ سے تقویٰ رکھو یہ امید رکھتے ہوئے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے) احمد اور ترمذی اور حاکم نے حضرت علی ؓ کی روایت سے اور ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو امامہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ جب آیت وللّٰہ علی الناس حج البیتنازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا ہر سال (حج فرض ہے) حضور ﷺ خاموش رہے صحابہ ؓ نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا ہر سال فرمایا نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہوجاتا دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تم کو اندیشہ نہ ہوا کہ (شاید) میں ہاں کہہ دوں اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) حج واجب ہوجاتا اور ہر سال واجب ہوجاتا تو پھر تم سے اس کی ادائیگی ہو نہ سکتی اگر میں تم کو چھوڑے رکھوں تو تم بھی مجھے (بغیر سوال کئے) چھوڑے رکھو تم سے پہلے کے لوگ زیادہ پوچھ پاچھ اور انبیاء سے زیادہ سوالات کرنے سے ہی برباد ہوئے اگر میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو تم سے جہاں تک ہو سکے اس کی تعمیل کرو اور جب کسی بات کی ممانعت کر دوں تو اس سے باز رہو ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top