Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
اس طرح کی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں (مگر جب بتائی گئیں تو) پھر ان سے منکر ہو گئے
قد سالہا قوم من قبلکم : تم (1) [ حضرت ابی ؓ بن کعب کی قرأت میں اس طرح آیا ہے قد سالہا قوم بینت لہم فاصبحوا بہا کافرین۔ اخرجہ ابن جریر وابن المنذر ] سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے ایسے سوال کئے تھے۔ (2) [ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غضب ناک حالت میں باہر تشریف لائے غصہ سے چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا پھر جا کر ممبر پر تشریف فرما ہوگئے اس وقت ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا میرے باپ دادا کہاں ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا دوزخ میں۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا میرا باپ کون ہے فرمایا تیرا باپ فلاں شخص ہے حضرت عمر ؓ بن خطاب نے (ناراضگی کی یہ کیفیت دیکھی تو) کھڑے ہو کر عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد ﷺ کے نبی ہونے پر اور قرآن کے دستور ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ ﷺ ہمارا دور جاہلیت شرک ابھی گزرا ہے (اور اسلام میں ابھی داخل ہوئے ہیں اس لئے ہماری گستاخی قابل معافی ہے) اور اللہ ہی خوب واقف ہے کہ ہمارے باپ دادا کون تھے (اور کہاں ہیں) یہ سن کر حضور ﷺ : کا غصہ فرو ہوا اور آیت یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ ۔۔ نازل ہوئی۔] سالہا کی ضمیر اشیاء کی طرف راجع ہے اور عَنْمحذوف ہے (یعنی ان چیزوں کے متعلق سوال کئے تھے) یا ھاضمیر مسئلہ کی طرف راجع ہے جس پر لفظ لا تسالوا دلالت کر رہا ہے (اس وقت عن محذوف قرار دینے کی ضرورت نہ ہوگی) بیضاوی نے من قبلکم کا تعلق سَألَہَا سے قرار دیا ہے قوءٌکی صفت نہیں قرار دیا (ہمارا ترجمہ بھی اس کے موافق ہے) کیونکہ ظرف زمان نہ صفت ہوسکتا ہے نہ حال نہ خبر۔ لیکن یہ استدلال قابل اعتراض ہے ظرف کی اسناد ایسی چیز کی طرف درست ہیں جس کے اندر اس چیز کا وقوع متعین نہیں جیسے الہلال یوم الجمعہہلال کا ظہور یوم جمعہ میں متعین نہیں اس لئے اس مثال میں تعین کو ظاہر کرنے کے لئے یوم جمعہ کی اسناد وقوع ہلال کی طرف کی گئی۔ بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے گائے کی کیفیت اور رنگ دریافت کرنا شروع کیا۔ ثمود نے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے (پہاڑ سے) اونٹنی برآمد کرنے کی درخواست کی تھی اور کچھ لوگوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے درخواست کی کہ خوان آسمان سے اتر کر آئے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل نے پیغمبر وقت سے سوال کیا کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کرو جس کے جھنڈے کے نیچے رہ کر ہم اللہ کی راہ میں جالوت سے لڑیں۔ ثم اصبحوا بہا کافرین پھر اس سوال کی وجہ سے وہ کافر ہوگئے۔ کیونکہ سوال کے بعد جو ان کو حکم دیا گیا اس کی انہوں نے اطاعت نہیں کی۔ ابو ثعلبہ خشنی نے فرمایا اللہ نے کچھ فرائض مقرر کردیئے ہیں تم (سوال کر کے) ان سے آگے نہ بڑھو کچھ باتوں کی ممانعت کردی ہے اس کی (خلاف ورزی کر کے) پردہ دری نہ کرو۔ کچھ حدود بندی کردی ہے ان حدود سے تجاوز نہ کرو کچھ چیزوں (کے ظاہر کرنے) سے بغیر نسیان کے اس نے درگزر کی ہے کہ تم ان کو (سوال کر کر کے) نہ اکھاڑو۔ بخاری نے بحوالۂ قتادہ حضرت انس بن مالک ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سوالات کئے اور اتنے مبالغہ کے ساتھ کئے کہ آپ ﷺ : غضب ناک ہوگئے اور ممبر پر تشریف لے جا کر فرمایا آج جس چیز کے متعلق تم سوال کرو گے میں اس کا جواب کھول کر دے دوں گا (پوچھو کیا پوچھتے ہو) یہ سن کر میں دائیں بائیں دیکھنے لگا میں نے دیکھا کہ ہر شخص کپڑے میں سر لپیٹے رو رہا تھا ایک آدمی تھا جو اپنا نسب غیر باپ سے جوڑتا تھا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ہم اللہ کے رب ہونے سے اسلام کے دین ہونے سے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے سے راضی ہیں اور فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج کی طرح کوئی دن کبھی میں نے نہیں دیکھا نہ خیر میں نہ شر میں۔ میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی (یعنی میری نظر کے سامنے دونوں کو لایا گیا) یہاں تک کہ دیوار سے پرے میں نے دونوں کو دیکھ لیا۔ قتادہ ؓ اس حدیث کو بیان کرتے وقت آیت یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَْسألُوْا عَنْ اَشْیَاءَ ۔۔ کا ذکر کر رہے تھے۔ یونس نے بروایت زہری عبیداللہ بن عبداللہ کا قول نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن حذافہ کی ماں نے عبداللہ سے کہا میں نے تجھ سے زیادہ ماں کا نافرمان بیٹا کوئی نہیں سنا تجھے کچھ اندیشہ نہ ہوا کہ اگر دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح تیری ماں سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوگئی تو لوگوں کے سامنے تو اس کو رسوا کرنے لگا۔ عبداللہ نے کہا خدا کی قسم اگر وہ حبشی غلام سے میرا جوڑ ملا دیتے تو میں اسی سے اپنے کو ملا دیتا۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم دور جاہلیت سے ابھی نکلے ہیں آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا یہ سن کر حضور ﷺ : کا غصہ فرو ہوا۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ سے بطور استہزاء سوال کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا میرا باپ کون ہے دوسرا کہہ رہا تھا میری اونٹنی گم ہوگئی ہے بتائیے میری اونٹنی کہاں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے دونوں واقعات ہوسکتے ہیں اور دونوں کے متعلق آیت کا نزول ہوسکتا ہے مگر حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کی سند تمام روایات سے زیادہ صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں اگر آیت کا نزول حج کے سوال کے متعلق قرار دیا جائے تو سیاق قرآنی کے زیادہ مناسب ہے لیکن اگر آیت کے نزول کا تعلق باپ کا نام دریافت کرنے سے جوڑا جائے تو آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ایسی چیزیں دریافت نہ کرو کہ اگر تم پر ان کا اظہار کردیا جائے تو تم کو برا لگے یعنی اگر تمہارا صحیح نسب ظاہر کردیا جائے اور غیر باپ کا نام بتادیا جائے تو تمہاری رسوائی ہو اور تم کو دکھ پہنچے۔ مجاہد نے کہا اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب لوگوں نے بحیرۂ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام کا حکم دریافت کیا تھا دیکھو متصل آیت میں انہی کا حکم بیان فرمایا ہے۔
Top