Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو) اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو (عصر کی) نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے گو ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم الله کی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے
یا ایہا الذین امنوا شہادۃ بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیۃ اثنن : اے مسلمانو ! تمہارے آپس میں دو آدمیوں کا وصی ہونا مناسب ہے جب کہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے کہ وصیت کے وقت۔ شَہَادۃ بینکممبتدا ہے اور اثنان خبر۔ اثنان سے پہلے لفظ شہادت محذوف ہے۔ الفاظ کے اعتبار سے جملۂ خبریہ ہے لیکن معنی امر کے ہیں مطلب یہ ہے کہ وصیت کے وقت دو آدمی موجود ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اثنان شہادۃ (مصدر) کا فاعل ہو اور شہادۃ مبتدا ہو اور اس کی خبر اس سے پہلے محذوف ہو یعنی جس چیز کی وصیت مردہ نے کی ہے اس پر دو آدمیوں کی شہادت ہو۔ شہادت سے مراد ہے گواہ بنانا یعنی دو آدمیوں کو بلا لینا تاکہ میّت ان سے کہہ دے۔ قصہ کی رفتار اسی مفہوم پر دلالت کر رہی ہے جیسے دوسری آیت میں آیا ہے ولیشہد عذابہما طائفۃ من المؤمنین۔ دو کی قید احتیاطی ہے (ضروری اور لازم نہیں) ورنہ باجماع علماء وصیت کے وقت ایک وصی ہونا بھی کافی ہے اِذَا حَصْرَ ۔ شہادت کا ظرف زمان ہے یعنی جب موت کا وقت آجائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب موت کی علامات نمودار ہوجائیں۔ حین الوصیۃ۔ حَضَرَکا ظرف ہے یا اِذَا حَضَرَسے بدل ہے بدل قرار دینے سے اس طرف اشارہ ہوجائے گا کہ موت کے وقت وصیت کو حقیر سمجھ کر ترک نہ کردیا جائے موت آنے کا وقت لازمی وصیت کا وقت ہے (بدل اصل مقصود ہوتا ہے اور مبدل منہ اس کی تمہید ہوتا ہے حضرت مفسر نے اسی ضابطہ کی طرف ایماء کیا ہے) ذواعدل منکم جو تم میں سے ہوں اور نیک آدمی ہوں۔ تم میں سے یعنی مسلمانوں میں سے۔ کیونکہ نیک مسلمان ہی امانت دار بنائے جانے کا زیادہ اہل ہے۔ او اخران من غیرکم یا غیر مسلموں میں سے کوئی دوسرے دو آدمی ہوں۔ ان انتم ضربتم فی الارض فاصابثکم مصیۃ الموت . اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تم پر موت کا حادثہ آپڑے۔ پھر تم نے ان کو وصی بنایا ہو اور ان کو اپنا مال دے دیا ہو اور بعض وارث ان پر خیانت کا شبہ کریں اور وہ دونوں خیانت کے منکر ہوں۔ یہ تمام امور محذوف ہیں قصۂ بدیل ان کے حذف پر دلالت کر رہا ہے۔ تحبسونہما تم خیانت کا انکار کرنے والے دونوں وصیوں کو روکے رکھو یہ لفظ اثنان کی بھی صفت ہوسکتا ہے اور آخر انکی بھی یعنی وصیت کے وقت جو دونوں شخص موجود تھے ان میں سے ہر ایک کو روکے رکھو۔ من بعد الصلوۃ نماز کے بعد یعنی عصر کی نماز کے بعد کیونکہ یہی وقت لوگوں کے بھی زیادہ اجتماع کا ہے اور شب و روز کے ملائکہ کے ملنے کا بھی بعض کے نزدیک عام نماز مراد ہے۔ فیقسمن باللہ ان ارتبتم لا تشتری بہ ثمنا ولو کان ذا قربی ولا نکتم شہادۃ اللہ انا اذا لمن الاثمین اگر تم کو شبہ ہو (تو نماز کے بعد دونوں میں سے ہر ایک کو روک رکھو) پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں (اور کہیں) کہ اس قسم کے عوض ہم کوئی دنیوی نفع لینا نہیں چاہتے اگرچہ کوئی قرابت دار ہی ہو اور اللہ کی بات کو ہم پوشیدہ نہیں رکھیں گے (ورنہ) اس حالت میں سخت گناہگار ہوں گے۔ یعنی اگر کسی وارث کو شبہ ہو اور وہ دونوں وصیوں کو خائن قرار دے اور وصی خیانت کا انکار کریں تو حاکم وصیوں سے قسم لے اور دونوں وصی قسم کھائیں لیکن وارثوں کو خیانت کا شبہ نہ ہو تو وصیوں کو قسم دینے کی ضرورت نہیں۔ اِنِ ارْتَبْتُمْکی شرط بطور معترضہ ہے قسم کا جواب لاَ نَشْتَرِیْہے لا نشتری بہ یعنی ہم قسم یا للہ کے عوض نہیں لیں گے۔ ثمنا یعنی دنیوی مال مراد یہ ہے کہ ہم لالچ میں آکر جھوٹی قسم نہیں کھاتے۔ ولو کان ذاقربی سے یہ مراد ہے کہ وصی خواہ میّت کا قرابت دار ہی ہو اور وارث اس پر خیانت کا شبہ کریں تو اس سے بھی قسم لی جائے گی قسم لینے کا حکم صرف اجنبی اور غیر کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ شہادۃ اللّٰہ یعنی وہ شہادت جس کو ادا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ شہادت سے مراد ہے حق کو ظاہر کرنا اور سچ سچ کہنا ‘ خواہ اپنی ذات کے خلاف پڑے۔ اِنَّا اِذًا یعنی اگر ہم حق پوشی کریں گے تو اس حالت میں ہم پکے گناہگار ہوں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز کے بعد تمیم اور عدی کو بلوا کر ممبر کے پاس اس طرح قسم لی کہ قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ہم نے اس چیز میں کوئی خیانت نہیں کی جو بدیل نے ہم کو دیا تھا دونوں نے یہ قسم کھائی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا پھر ایک طویل مدت کے بعد وہ برتن ان دونوں کے پاس پایا گیا۔ سعید بن جبیر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ وہ برتن مکہ میں ملا اور جن لوگوں کے پاس ملا تھا انہوں نے کہا کہ تمیم و عدی سے یہ خریدا ہے یہ خبر بنی سہم کو پہنچی تو وہ تمیم و عدی کے پاس گئے۔ تمیم و عدی نے کہا ہم نے یہ برتن بدیل سے خرید لیا تھا بنی سہم نے کہا تم نے تو پہلے یہ کہا تھا کہ بدیل نے کوئی چیز نہیں فروخت کی کہنے لگے فروخت کرنے کا کوئی ثبوت تو ہمارے پاس تھا نہیں اس لئے ہم نے پسند نہیں کیا کہ اس کے موجود ہونے کا تم سے اقرار کریں پوشیدہ رکھنے کی یہی وجہ ہوئی بنی سہم نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں مرافعہ کیا تو آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top