Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہیں گے اَنْ : کہ يَّخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنَ : سے النَّارِ : آگ وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنْهَا : اس سے وَلَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : ہمیشہ رہنے والا
(ہر چند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے
یریدون ان یخرجوا من النار وما ہم بخارجین منہا وہ آگ سے ہرچند نکلنا چاہیں گے مگر نکلنے والے ہی نہ ہوں گے (یعنی نہ نکل سکیں گے) یعنی نکلنے کا ارادہ کریں گے جیسے دوسری آیت میں آیا ہے۔ کلما ارادوا ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہایا یہ مطلب کہ اللہ سے نکلنے کی تمنا اور درخواست کریں گے جیسے دوسری آیت میں دوزخیوں کی دعا کو نقل کیا گیا ہے۔ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْہَا۔ وَمَاہم بخارجین بصورت جملۂ اسمیہ کلام میں صرف زور پیدا کرنے کے لئے فرمایا (کیونکہ جملہ فعلیہ حدوث پر دلالت کرتا ہے اور فعلیہ کی جگہ جملۂ اسمیہ کا استعمال دوام کو ظاہر کرتا ہے) ولہم عذاب مقیم اور ان کے لئے لازوال عذاب مخصوص ہے۔ جملۂ سابقہ میں جس مفہوم کو ضمناً بیان کیا گیا تھا۔ اس کی صراحت اس جملہ میں کردی ایک مزید بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جس طرح دفع عذاب اور تخفیف عذاب ان کے اوپر سے ناممکن ہوگی اسی طرح دوام عذاب بھی ناقابل زوال ہوگا۔
Top