Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا کرتے تھے
کانوا لا ینتاہوں عن منکر فعلوہ (نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنے کی تشریح یہ ہے کہ) وہ آپس میں برے کام (دوبارہ) کرنے سے نہ روکتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ جب بعض لوگ برے کام کرنے کا ارادہ کرتے تھے تو دوسرے لوگ ان کو منع نہیں کرتے تھے۔ برائی سے منع نہ کرنے کا تقاضا ہے کہ سب پر عذاب آجائے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے خود سنا آپ فرما رہے تھے کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو اغلب ہے کہ اللہ کا عذاب ان سب پر آجائے۔ رواہ الاربعۃ۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ نسائی کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جب لوگ برے کام (ہوتے) دیکھیں اور ان کو نہ بدلیں۔ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جن لوگوں کے اندر گناہ کئے جا رہے ہوں اور وہ گناہوں کو بدل دینے کی طاقت رکھنے کے باوجود نہ بدلیں تو اغلب ہے کہ اللہ کا عذاب ان سب پر آجائے۔ آیت کا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ برے کاموں سے باز نہ رہتے تھے بلکہ ان پر جمے رہتے تھے۔ تَنَاہٰی عَنِ الْاَمْرِ فلاں شخص فلاں کام سے رک گیا یا باز رہا۔ لبئس ما کانوا یفعلون ان کی یہ حرکتیں بری تھیں۔ اس جملہ میں ان کی بدکرداری پر تعجب اور پُر شوکت مذمت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن مسعود : کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل میں سے اگر کوئی شخص گناہ کرتا تھا تو دوسرا شخص اس کو منع کرتا تھا۔ لیکن دوسرے روز صبح کو یہی منع کرنے والا اسی مرتکب گناہ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور کھاتا پیتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کل گناہ میں اس کو آلودہ اس نے دیکھا ہی نہ تھا۔ جب اللہ نے ان کی یہ حالت ملاحظہ فرمائی تو سب کے دل ایک جیسے کردیئے اور کچھ لوگوں کو ان میں سے بندر اور سؤر بنا ڈالا اور داؤد و عیسیٰ کی زبانی ان پر لعنت کی اس کا سبب ان کی نافرمانی اور حدود و ممانعت سے تجاوز تھا۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم کو ضرور نیکی کی ہدایت اور برائی سے بازداشت اور بیوقوف کے ہاتھوں پر گرفت اور حق پر اجتماعی موافقت کرنی لازم ہے۔ ورنہ تمہارے دلوں کو بھی اللہ ایک جیسا کر دے گا (یعنی سب کے دلوں پر مہر لگا دے گا) اور جس طرح ان پر لعنت کی اسی طرح تم پر بھی لعنت کرے گا۔ رواہ الترمذی و ابو داؤد۔ من حدیث عبداللہ بن مسعود مرفوعاً ۔ (1) [ شاید عبدالرحمن بن مسعودسہو کاتب ہے صحیح عبداللہ بن مسعود ہے۔ مترجم ]
Top