Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 85
فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ
فَاَثَابَهُمُ : پس ان کو دئیے اللّٰهُ : اللہ بِمَا قَالُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کہا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس (ان) میں وَذٰلِكَ : اور یہ جَزَآءُ : جزا الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
تو خدا نے ان کو اس کہنے کے عوض (بہشت کے) باغ عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے
فاثا بہم اللہ بما قالوا جنت تجری من تحتہا الانہر خلدین فیہا :” سو اللہ ان کے اس قول کی جزا میں جنتیں عطا فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی (اور ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے “۔ یعنی خلوص اعتقاد کے بعد انہوں نے اظہار ایمان کیا اس کے عوض اللہ ان کو جنت عطا فرمائے گا۔ خلوص اعتقاد کا ظہور ان کے رونے سے ہو رہا ہے کہ کلام حق کو سننے کے بعد وہ رونے لگے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قول کا (حقیقی) معنی ہی یہ ہے کہ عقیدہ کے بعد قول ہو جیسے بولتے ہیں یہ فلاں شخص کا قول ہے یعنی پختہ خیال ہے۔ وذلک جزآء المحسنین۔ ” اور یہ (جنت) نیکوکاروں کی جزاء ہے “۔ یعنی ان نیکوکاروں کی جزاء اعمال ہے جو حضور قلب اور انتہائی خشوع سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا احسان (عبادت کی انتہائی خوبی) یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت اس طرح کرو گویا (وہ تمہارے سامنے ہے اور) تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو تو پھر یہ (یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ قرآن مجید کا ضابطہ یہ ہے کہ ترغیب کے بعد خوف بھی دلاتا ہے دونوں کو جوڑ کر (یعنی متصل ‘ 12) بیان کرتا ہے اس لئے آئندہ آیت میں کافروں کی سزا کا ذکر کیا اور چونکہ اہل ایمان کے ذکر میں قلبی تصدیق معرفت حق اور اقرار قولی کو بیان کیا تھا اس لئے (اس کے مقابل) انکار حق اور تکذیب کا ذکر کیا اور فرمایا۔
Top