Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : ساتھ لغو کے فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں میں وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : وہ مواخذہ کرے گا تمہارا بِمَا : بوجہ اس کے جو عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ : مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی فَكَفَّارَتُهٗٓ : تو کفارہ ہے اس کا اِطْعَامُ : کھانا کھلانا عَشَرَةِ : دس مَسٰكِيْنَ : مسکینوں کا مِنْ اَوْسَطِ : اوسط درجے کا مَا تُطْعِمُوْنَ : جو تم کھلاتے ہو اَهْلِيْكُمْ : اپنے گھروالوں کو اَوْ كِسْوَتُهُمْ : یا کپڑ پہنانا ان کو اَوْ : یا تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ : آزاد کرنا ایک گردن کا فَمَنْ : تو جو کوئی لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھنا ہیں ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ : تین دن کے ۭذٰلِكَ : یہ كَفَّارَةُ : کفارہ ہے اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا اِذَا حَلَفْتُمْ : جب تم قسم کھاؤ ۭ وَاحْفَظُوْٓا : اور حفاظت کیا کرو اَيْمَانَكُمْ ۭ : اپنی قسموں کا كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهِ : اپنی آیات کو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو
لا یواخذکم اللہ باللغوفی ایماناکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان “ اللہ تم سے مواخذہ نہیں کرتا تمہاری قسموں میں لغو قسم پر بلکہ مواخذہ اس قسم پر کرتا ہے جو تم نے مستحکم کی ہو “۔ اس آیت کی تفسیر اور قسموں کے اصناف و احکام کی تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ مواخذہ سے مراد ہے آخرت کی گرفت اور ماعقدتم الایمان سے وہ قسمیں مراد ہیں جن کو مستحکم کرنے کا عزم کرلیا گیا ہو خواہ کسی فعل کو کرنے کی قسم ہو یا نہ کرنے کی اور دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر استحکام کیا گیا ہو۔ بہرحال قسم کا تعلق کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اس طرح کی قسم کو پورا کرنا واجب ہے اللہ نے فرمایا ہے : (یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بالْعُقُوْد) (1) [ ابو الشیخ اور عبد بن حمید نے سعید بن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر قسم میں حلال کو حرام کرلیا گیا تو یہ قسم لغو ہے اس کو توڑ کر کفارہ دینا لازم ہے اللہ اس پر مواخذہ نہیں کرے گا۔ مواخذہ صرف ان قسموں پر ہوگا جن کا تعلق قصد و ارادہ سے ہوگا۔] (وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتمُّ الْاَیْمَانَ ) کا مطلب یہ ہے کہ پختہ قسموں کو اگر توڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گرفت کرے گا یا یوں کہو کہ پختہ قسموں کو توڑنے پر تم سے مواخذہ کرے گا (اوّل صورت میں شرط محذوف ہوگی اور دوسری صورت میں ماعقدتم سے پہلے مضاف محذوف ہوگا) ۔ مسئلہ چاروں ائمہ اور جمہور علماء کے نزدیک انعقاد قسم کے لئے حرف قسم ضرور ہونا چاہئے خواہ تلفظ کیا گیا ہو یا محذوف ہو پھر حرف قسم کا اللہ کے کسی نام کے ساتھ یا کسی ایسے لفظ کے ساتھ آنا بھی ضروری ہے۔ جو اللہ کی ذات پر دلالت کر رہا ہے جیسے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ قسم ہے دلوں کو پھیر دینے والے کی قسم ہے آسمان و زمین کے رب کی وغیرہ۔ بعض علماء احناف کا قول ہے کہ اگر ایسے وصفی نام لے کر قسم کھائی جائے جو اللہ کے لئے مخصوص ہیں تو قسم ہوجاتی ہے اور اگر ایسے وصفی صیغوں کا ذکر کیا جائے جن کا استعمال دوسروں کے لئے بھی ہوتا ہے جیسے حلیم ‘ علیم ‘ قادر ‘ وکیل ‘ رحیم وغیرہ تو انعقاد قسم نیت یا عرف یا قرینۂ حال پر موقوف ہے (بغیر نیت کے یا بغیر دلالت حال کے یا بغیر عرف کے قسم کا انعقاد نہ ہوگا) امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اللہ کی جن صفات کی عرفاً قسم کھائی جاتی ہے ان کی قسم کھانے سے انعقاد قسم ہوجاتا ہے جیسے اللہ کی عزت و جلال اور عظمت و بزرگی کی قسم۔ لیکن جن صفات کی عرفاً قسم نہیں کھائی جاتی ان کو ذکر کرنے سے قسم نہیں ہوتی جیسے اللہ کے علم ‘ ارادہ اور مشیت کی قسم۔ مشائخِ عراق نے صراحت کی ہے کہ صفات ذات کی قسم کھانے سے قسم کا انعقاد ہوجاتا ہے اور صفات فعل کی قسم کھانے سے انعقاد نہیں ہوتا۔ ان مشائخ کے نزدیک صفات ذات سے مراد وہ صفات ہیں جن کی ضد اللہ میں موجود نہیں ہے جیسے قدرت و جلال ‘ بزرگی ‘ عظمت (کہ ان کی ضد یعنی عجز ‘ ذلت ‘ حقارت وغیرہ سے اللہ پاک ہے) اور صفات فعل سے مراد وہ اوصاف ہیں کہ ان کی ضد بھی اللہ میں موجود ہے جیسے رحمت ‘ غضب ‘ خوشنود ی اور ناراضی ‘ رزق کی تنگی اور فراخی وغیرہ) ۔ مسئلہ قرآن کی قسم تینوں اماموں کے نزدیک ہوجاتی ہے لیکن امام اعظم (رح) کے نزدیک عرف نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی (شاید امام صاحب کے زمانہ میں قرآن کی قسم عرفاً نہیں کھائی جاتی ہوگی) ابن ہمام نے کہا ہے کہ اب قرآن کی قسم عرفاً کھائی جاتی ہے۔ لہٰذا امام صاحب (رح) کے نزدیک قرآن کی قسم ‘ قسم قرار دی جائے گی۔ مصحف کی قسم کا حکم بھی قرآن کی قسم کی طرح ہے کیونکہ مصحف سے مراد بھی قرآن ہی ہے کاغذ مراد نہیں ہے۔ ابن عبدالبر نے مسئلہ قسم میں صحابہ اور تابعین کے اقوال نقل کر کے صراحت کی ہے کہ سب کے نزدیک قرآن کی قسم کا کفارہ واجب ہے اس کے خلاف کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ قرآن کی جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کتنا ہونا چاہئے اس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ایک کفارہ ہوگا۔ امام احمد کے دو قول منقول ہیں ایک قول میں صرف ایک کفارہ ہونا منقول ہے اور دوسرے قول میں آیا ہے کہ ہر آیت کا ایک کفارہ ہوگا۔ اگر اللہ کے حق کی قسم کھائی تو امام صاحب (رح) کے نزدیک قسم نہیں ہوگی ‘ باقی تینوں اماموں کے نزدیک ہوجائے گی۔ اگر لعمر اللہ اور ایم اللہ کہا تو امام صاحب (رح) کے نزدیک قسم ہوجائے گی۔ قسم کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ امام احمد (رح) : کا بھی ایک قول یہی ہے۔ بعض شوافع کا قول ہے کہ بغیر نیت کے ان الفاظ سے قسم نہیں ہوگی۔ امام احمد (رح) : کا قول بھی دوسری روایت میں یہی آیا ہے۔ مسئلہ اگر کعبہ یا نبی کی قسم کھائی تو امام احمد (رح) کے علاوہ تینوں اماموں کے نزدیک قسم نہیں ہوگی نہ کفارہ واجب ہوگا امام احمد کا قوی روایت میں قول اس کے خلاف آیا ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ نبی کی قسم کھائی تو قسم ہوجائے گی۔ ہمارے قول کا ثبوت اس فرمان نبوی سے ہوتا ہے کہ قسم کھانا ہی ہو تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔ (صحیحین) ابو داؤد نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ حضرت ابن مسعود ؓ : کا قول موقوفاً منقول ہے ‘ اللہ کی جھوٹی قسم کھانا میرے نزدیک کسی اور کی سچی قسم کھانے سے بہتر ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے یہ حکم اس صورت میں ہوگا جب نبی ﷺ کی قسم کھائی ہو لیکن اگر اس طرح کہا ہو کہ اگر میں نے یہ کام کیا ہو تو میں نبی ﷺ سے یا کعبہ سے بیزار ہوں یا کافر ہوں یا یہودی یا عیسائی ہوں تو لامحالہ اس کو قسم مانا جائے گا کیونکہ جب وقوع شرط کو کفر کی نشانی اس نے خود قرار دے دیا تو لامحالہ وقوع شرط سے باز رہنا واجب ہے لہٰذا اس کو قسم مانا جائے گا جیسے بعض دوسری صورتوں میں (حرف قسم یا شرط ذکر نہ کرنے کی صورت میں) بھی قسم قرار دیا جاتا ہے مثلاً کسی حلال چیز کو کسی نے اپنے لئے حرام بنا لیا تو یہ قسم ہوجائے گی۔ البتہ امام شافعی (رح) کے نزدیک تحریم حلال قسم نہیں ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماریہ (رسول اللہ ﷺ کی ایک مملوکہ) کو اور شہد پینے کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یٰایُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہَ لَکَ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَخِلَّۃً اَیْمَانِکُمْ ) (کذافی الصحیحین) اس کی تفصیل سورة تحریم میں انشاء اللہ آئے گی۔ مسئلہ اگر میں نے ایسا کیا ہو تو یہودی ہوں یا اسلام سے خارج ہوں یہ الفاظ یمین غموس کے ہیں (یعنی گزشتہ واقعہ کے متعلق دانستہ بالارادہ جھوٹی قسم ہے) اگر اس نے ماضی میں وہ فعل کر بھی لیا ہوگا تو امام صاحب کے نزدیک اس قسم سے کافر نہیں ہوجائے گا کیونکہ مستقبل کے متعلق یہی الفاظ استعمال کرے (اور یوں کہے اگر میں ایسا کروں تو اسلام سے خارج ہوجاؤں اور پھر وہ کام کرلے) تو کافر نہیں ہوجاتا ہے پس ماضی کو مستقبل پر قیاس کیا جائے گا۔ بعض لوگ کافر ہوجانے کے قائل ہیں کیونکہ اس نے دانستہ کفر کو اپنے اوپر لاگو کیا ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے صحیح یہ ہے کہ ایسا کہنے والا اگر اس قول کو صرف قسم جانتا ہے تو کافر نہ ہوگا اور اگر سمجھتا ہے کہ اس حلف سے وہ کافر ہوجائے گا۔ تو چونکہ حلف کھا کر اس نے خود کفر کو پسند کیا ہے اس لئے کافر ہوجائے گا۔ حضرت بریدہ ؓ : کی روایت ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا اگر کسی نے کہا کہ میں اسلام سے الگ ہوں پس اگر وہ جھوٹا ہے (واقع میں مؤمن ہوتے ہوئے اس نے اپنے کو خارج از اسلام کہا) تو اپنے قول کے مطابق ہوجائے گا اور سچا ہے تو اسلام کی طرف خالص طور پر نہیں لوٹے گا۔ (رواہ ابو داؤد و النسائی و ابن ماجہ) مسئلہ اگر اللہ تعالیٰ کے نام یا اس کی کسی صفت کے ذکر کے ساتھ بصیغۂ ماضی قسم کھائی مثلاً اَقْسَمْتُ باللّٰہ یا حَلَفْتُ باللّٰہِیا شَہِدْتُ باللّٰہِیا عَزَمْتُ باللّٰہِکہا تو باتفاق علماء یہ قسم ہوگئی اور اگر بصیغۂ مضارع قسم کھائی مثلاً اُقْسِمُ باللّٰہِیا اَحْلِفُ باللّٰہِیا اَشْہَدُ باللّٰہِیا اَعْزِمُ باللّٰہِکہا تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک (مضارع کا معنی حال کا لیا جائے گا اور) یہ قسم ہوجائے گی کیونکہ مضارع کا حال میں استعمال ہی حقیقی ہے استقبال کا معنی مراد لینا مجازی ہے جس کے لئے کوئی قرینہ ہونا ضروری ہے خواہ سین ہو یا سوف یا اور کچھ ‘ امام شافعی (رح) کے نزدیک بغیر نیت کے قسم نہ ہوگی کیونکہ (صیغۂ مضارع کا استقبالی معنی میں استعمال حقیقی ہے اور) احتمال ہے کہ صیغۂ مضارع بول کر اس نے آئندہ قسم کھانے کا وعدہ کیا ہو (اس صورت میں اقسِمُاور اشہدکا ترجمہ ہوگا میں قسم کھا لوں گا میں شہادت دوں گا کہ ایسا کروں گا) ۔ مسئلہ اگر اللہ کا نام اور صفت ذکر نہیں کی بلکہ صرف اَقْسَمْتُیا اُقٰسِمُیا حَلَفْتُیا اَحْلِفُکہا (یعنی میں نے قسم کھالی ہے یا قسم کھاتا ہوں) تو امام اعظم (رح) کے نزدیک یہ قسم ہوگی قسم کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو اور اگر اس لفظ کو بول کر اس نے قسم کی نیت نہیں کی ہو تو قاضی اس کے قول کو تسلیم نہیں کرے گا (یعنی یہ بات نہ مانے گا کہ لفظ قسم و حلف سے میری مراد قسم نہیں تھی) ہاں اللہ کے ہاں وہ ماخوذ نہ ہوگا یعنی عدالت میں اس کو سچا نہیں قرار دیا جائے گا۔ عدالت میں اس کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ قسم کو قسم ہی قرار دیا جائے گا البتہ دیانتہً وہ سچا ہوگا اور دیانت کا تعلق صرف اللہ سے براہ راست ہے (جو دلوں کے احوال کو جاننے والا ہے) امام زفر کے اور ایک قول میں امام مالک اور امام احمد کے نزدیک بھی اگر صرف لفظ قسم بول کر اس نے اللہ کی قسم مراد لی ہوگی تو قسم ہوجائے گی اور اللہ کی قسم کی نیت نہ کی ہوگی تو اسلامی قسم نہ ہوگی کیونکہ لفظ میں غیر شرعی قسم کا احتمال ہے (اور غیر شرعی قسم قسم نہیں ہوتی) امام شافعی (رح) کے نزدیک صرف لفظ قسم کہنے سے قسم ہی نہیں ہوتی خواہ قسم کی نیت کرلی یا نہ کرلی ہو۔ ہم کہتے ہیں اللہ کی قسم ہی مسلمانوں کا دستور اور مشروع ہے اللہ کے سوا دوسرے کی قسم کھانا ممنوع ہے اس لئے نیت غیر مشروع نہ ہونے کی صورت میں مشروع ہی کی طرف کلام کو لوٹایا جائے گا اس کا ثبوت حدیث میں آیا ہے حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے خواب دیکھا اور رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ : ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی تعبیر دوں گا۔ رسول اللہ : ﷺ نے اجازت دے دی اور حضرت ابوبکر ؓ نے تعبیر دی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے صحیح تعبیر دی فرمایا (کچھ) صحیح دی اور (کچھ) غلط دی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں قسم کھاتا ہوں کہ حضور ﷺ (میری غلطی) مجھے بتائیں گے ‘ حضور : ﷺ نے فرمایا اس طرح کی قسم نہ کھاؤ امام احمد کی روایت میں اس حدیث کے الفاظ اسی طرح آئے ہیں لیکن صحیحین میں یہ الفاظ ہیں (حضرت ابوبکر ؓ نے کہا) اللہ کی قسم آپ ضرور مجھے بتائیں گے کہ میں نے کیا غلطی کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا قسم نہ کھاؤ۔ واللہ اعلم۔ فکفارتہ ” تو اس کا اتار “۔ یعنی قسم توڑنے کا کفارہ یا توڑنے کی صورت میں یمین منعقد کا کفارہ۔ کفارہ یعنی ایسا مَس جو قسم کے گناہ کو ساقط کر دے اور اتار دے اور چھپا دے (کفْرٌ: کا لغوی معنی ہے چھپانا) اطعام عشر مسکین ” دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے “۔ اطعام کھانے پر قادر بنا دینا خواہ اس طرح ہو کہ کسی کو کھانے کا مالک بنا دے یا اس طرح ہو کہ اس کو کھانے کی اجازت دے دے اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اگر صبح شام دو وقت پیٹ بھر کر کہلا دیا اور مالک نہیں بنایا (یعنی کھانا اس طرح نہ دیا کہ چاہے وہ گھر کو لے جائے اور چاہے خود وہیں کھالے) تو جائز ہے خواہ انہوں نے تھوڑا کھایا ہو یا بہت (یعنی مقدار طعام دینا شرط نہیں ہے پیٹ بھر کر کہلا دینا کافی ہے) کرخی نے حسن بن زیاد کی روایت سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک کھانے کا مالک بنا دینا ضروری ہے (کہ چاہے وہ سب لے جائے چاہے کچھ کھائے کچھ لے جائے چاہے سب کھالے) کیونکہ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر میں بھی تملیک ہی شرط ہے ( اور دونوں کی مقدار مقرر ہے جو مسکین کو دے دی جاتی ہے خواہ وہ کچھ بھی کرے لہٰذا کفارہ کی مقدار کا بھی مسکین کو مالک بنا دینا ضروری ہے وہ جیسا چاہے تصرف کرے) اس کے علاوہ مالک بنا دینے یعنی مسکین کو دے دینے سے اس کی ضرورتیں بھی زیادہ پوری ہوجاتی ہیں صرف کھانے کی اجازت دینے سے ضرورتوں کی تکمیل ممکن نہیں۔ ہم کہتے ہیں زکوٰۃ کے لئے تو لفظ اتوا آیا ہے اور صدقۂ فطر کے لئے بھی لفظ ادا استعمال کیا گیا ہے اور ایتا اہویا ادائ دونوں کا حقیقی معنی مالک بنا دینا (ہر قسم کے تصرف کا کامل حق دے دینا) ہی ہے مگر اطعام کا حقیقی معنی کھانا دینا نہیں ہے بلکہ کھانے پر قادر بنا دینا ہے (یعنی کھانا کھلانا اطعامکا حقیقی مفہوم ہے) ایک شبہ اگر اطعام کا حقیقی مفہوم کھانے پر قادر بنا دینا (یعنی کھانا کھانے سے نہ روکنا) ہی ہے تو مالک بنا دینا (یعنی اس طرح دے دینا کہ وہ خود نہ کھائے بلکہ لے جائے اور اس کھانے کا جس طرح چاہے استعمال کرے) جائز نہ ہونا چاہئے کیونکہ (تملیک کا مفہوم مجازی ہوگا) اس صورت میں حقیقت و مجاز دونوں کا بیک وقت مراد ہونا لازم آئے گا۔ ازالہ ہم کہتے ہیں تملیک کے اندر بھی کھانے کی اجازت اور عطاء قدرت ہوتی ہے یا یوں کہا جائے کہ قلیک کا جواز دلالتِ نص کے سبب سے ہے (اور اباحت کا مفہوم حقیقی ہے) اور دلالتِ نص حقیقت پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوتی جیسے (ماں باپ) کو اف کرنے کی ممانعت (حقیقی ہے اور مارنے گالی دینے کی ممانعت بدلالتِ نص ہے اور) مارنے گالی دینے کی ممانعت اف کرنے کی ممانعت سے مانع نہیں ‘ کیونکہ ورود نص کی اصل غرض ہے کھانے کی ضرورت کو پورا کرنا اور تملیک سے ہر ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ لہٰذا کھانے کی ضرورت کا اس میں شمول بدرجہ اولیٰ ہے۔ عبد بن حمید ‘ ابن المنذر ‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے کہ آیت (فَکَفَّارَتُہٗ اطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ ) کی تشریح میں حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے فرمایا مسکینوں کو صبح شام کا کھانا کھلا دے ‘ روٹی گوشت ہو یا روٹی اور روغن زیتون یا روٹی اور گھی یا روٹی اور کھجوریں۔ مسئلہ کھانے والے مسکینوں میں اس بچہ کی گنتی نہ ہوگی جس کا دودھ حال میں چھڑایا گیا ہو کیونکہ وہ پورے طور پر (کھانا) نہیں کھا سکتا۔ مسئلہ اگر گیہوں کی روٹی نہ ہو تو سالن ہونا بھی ضروری ہے تاکہ پیٹ بھر کر پورے طور پر کھائی جاسکے گیہوں کی روٹی میں یہ شرط نہیں ہے بشرطیکہ کھانا کھلانے والا بغیر سالن کے گیہوں کی روٹی معمولاً کھاتا ہو۔ مسئلہ امام صاحب کے نزدیک ایک ہی مسکین کو دس دن تک کھانا دینا جائز ہے ‘ لیکن ایک دن میں ایک ہی شخص کو دس مرتبہ کھانا دینا جائز نہیں ہے بعض علماء نے لکھا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دن میں دس مرتبہ کھلانا کافی نہیں ہے لیکن ایک دن میں دس مرتبہ کھانا دینا (یعنی دس مرتبہ میں دس آدمیوں کی خوراک کا ایک شخص کو ایک ہی دن میں مالک بنا دینا) جائز ہے کیونکہ تملیک کی ضرورت ایک دن میں نو بنو ہوسکتی ہے مگر کھانے کی ضرورت ایک دن میں دس بار نہیں ہوتی۔ اگر یکدم دس مسکینوں کا کھانا ایک مسکین کو دے دیا تو جائز نہیں یہ تمام اقوال امام صاحب کے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی : (رح) کا قول ہے کہ دس مساکین کا کھانا ایک مسکین کو کھلانا جائز ہے نہ دینا۔ (نہ یک دم نہ دس مرتبہ میں نہ دس دن میں) کیونکہ آیت میں عشرۃ مساکین (دس مسکینوں) کی نص ہے اور ایک مسکین اگر بار بار حاجت مند ہوتا رہے تو دس مسکین نہیں ہوسکتا (رہے گا ایک ہی مسکین) امام اعظم (رح) نے فرمایا کہ اصل مقصد ہے حاجت کو پورا کرنا ‘ اور کھانے کی حاجت ہر روز نئی ہوتی ہے لہٰذا دوسرے روز بھی پہلے مسکین کو ہی دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی دوسرے مسکین کو دینا (گویا حاجت کے تجددر سے امام صاحب کے نزدیک مساکین کا تعدد حکماً ہوجاتا ہے) اور ایک دن میں دس مرتبہ کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی (اس لئے مساکین کا تعدد نہ حقیقی ہوگا نہ حکمی اسی وجہ سے یہ صورت ناجائز ہے) امام شافعی (رح) نے فرمایا اگر ضرورت طعام پوری کرنے کو اصل علت قرار دیا جائے گا اور مذکورۂ بالا توجیہ کی جائے گی تو نص کا تقاضا پورا نہ ہوگا (لفظ عشرہ مساکین بےمعنی اور بےمقصد قرار پائے گا) مسئلہ اگر دس مسکینوں کو کھانا دیا جائے تو ہر مسکین کے لئے اہل عراق کے نزدیک دو مد (تقریباً دو سیر) یعنی آدھا صاع ہونا چاہئے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کا قول بھی روایت میں یہی آیا ہے امام ابوحنیفہ نے فرمایا گندم کا نصف صاع اور جَو یا چھواروں کا پورا صاع ہونا چاہئے۔ شعبی ‘ نخعی ‘ سعید بن جبیر ‘ مجاہد اور حکم کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک مد سے مراد ہیں بغدادی دو رطل۔ امام احمد نے فرمایا گیہوں یا (گیہوں کا) آٹا ایک مد اور جو یا چھوارے دو مد اور روٹی یعنی گیہوں کی روٹی دو رطل ہونی چاہئے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا مد سے مراد ہے رسول اللہ : ﷺ کا مد جو 3 /1 1 رطل کے برابر تھا اور جنس وہ ہونا چاہئے جس کو شہر میں اکثر لوگ کھاتے ہیں۔ روٹی اور آٹا دینا صحیح نہیں ہے ثابت غلہ دینا چاہئے۔ بغوی نے لکھا ہے۔ زید ؓ بن ثابت ‘ ابن ؓ : عمر ‘ ابن ؓ عباس ‘ سعید ؓ بن المسیب ‘ قاسم ‘ سلیمان بن یسار ‘ عطاء اور حسن کا بھی یہی قول ہے۔ تمام کفارات میں ائمہ اور صحابہ ؓ وتابعین کا اختلاف قسم کے کفارہ کی طرح ہے۔ امام صاحب کے نزدیک درہم و دینار کی شکل میں قیمت جنس لگانے کے بعد کفارہ ادا کرنا صحیح ہے دوسرے علماء کے نزدیک درست نہیں۔ کرخی نے حضرت عمر ؓ : کا قول بیان کیا ہے کہ چھواروں اور جو کا ایک صاع اور گیہوں کا آدھا صاع ہونا چاہئے کرخی نے اپنی اسناد سے یہ بھی بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا قسم کا کفارہ گیہوں کا نصف صاع ہے۔ یہ بھی کرخی نے بیان کیا کہ مجاہد نے فرمایا قرآن میں جو کفارہ ہے اس کی مقدار فی مسکین نصف صاع گندم ہے۔ ابن جوزی نے التحقیق میں لکھا ہے کہ سلیمان بن یسار نے کہا میں نے لوگوں کو طعام مساکین میں ایک ایک مد دیتے ہوئے پایا۔ دوسری روایت میں اتنا زائد آیا ہے کہ یہ مقدار کافی ہوتی تھی (یعنی کفارہ ادا کرنے کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی) کفارہ کے سلسلے میں حضرت ابو سلمہ ؓ کی روایت آئی ہے کہ سلیمان ؓ بن صخر نے (جن کو سلمہ ؓ بن صخر کہا جاتا تھا) اپنی بیوی سے رمضان کے لئے ظہار کرلیا یعنی بیوی سے کہہ دیا کہ تو میرے لئے رمضان میں ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ۔ لیکن آدھا رمضان گزرنے پر ہی رات کو قربت کر بیٹھے اور رسول اللہ : ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش واقعہ کردی۔ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا ایک بردہ آزاد کر دو ۔ سلمہ ؓ نے عرض کیا بردہ تو مجھے میسر نہیں فرمایا دو مہینوں کے پیہم روزے رکھو۔ عرض کیا اس کی بھی مجھ میں طاقت نہیں۔ فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دو ۔ عرض کیا یہ بھی مجھے توفیق نہیں اس وقت حضور : ﷺ نے عروہ بن عمرو سے فرمایا اس کو ایک فرق دے دو فرق ایک پیمانہ ہوتا ہے جس کے اندر پندرہ سولہ صاع (غلہ) آتا تھا کہ ساٹھ مسکینوں کو یہ کھلا دے۔ رواہ الترمذی۔ ابو داؤد ‘ ابن ماجہ اور دارمی نے بھی راوی مذکور کی روایت میں سلمہ بن صخر کا بیان حسب روایت ترمذی نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت سلمہ ؓ نے کہا میں عورتوں میں وہ چیز پاتا تھا جو دوسرے نہیں پاتے۔ الخ۔ امام شافعی (رح) اور دوسرے فقہاء جو ہر مسکین کے لئے مذکورۂ حدیث مقدار (یعنی ربع صاع) کافی قرار دیتے ہیں حدیث سلمہ ؓ سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو طبرانی نے حضرت اوس ؓ بن صامت کی روایت سے بیان کی ہے کہ حضور : ﷺ نے فرمایا تھا ‘ ساٹھ مسکینوں کو تیس صاع کھانا دے دے اس نے عرض کیا میرے پاس تو یہ نہیں ہاں اگر آپ ﷺ میری مدد کریں تو ایسا ہوسکتا ہے چناچہ حضور ﷺ نے اس کو پندرہ صاع کی مدد دی اور باقی دوسروں نے اعانت کردی کہ تیس صاع ہوگئے انتہیٰ ۔ میں کہتا ہوں غالباً (وہ پندرہ صاع) گیہوں ہوں گے۔ ابو داؤد نے بطریق ابن اسحاق بروایت معمر بن عبداللہ بن حنظلہ از یوسف ؓ بن عبداللہ بن سلام حدیث مذکور کی روایت ان الفاظ کے ساتھ کی ہے کہ رسول اللہ : ﷺ نے فرمایا تھا میں اس کی مدد ایک فرق چھواروں سے کر دوں گا ‘ حضرت اوس ؓ بن صامت نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک فرق سے میں مدد کر دوں گا فرمایا اَحْسَنْتّ ۔ راوی نے کہا فرق ساٹھ صاع کا تھا اور مکتل تیس صاع کا۔ ابن ہمام نے لکھا ہے۔ مؤخر الذکر قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اگر مکتل ساٹھ صاع کا ہوتا تو کفارہ کے لئے دوسرے فرق کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ابو داؤد نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن کی روایت سے بیان کیا ہے کہ فرق پندرہ صاع کا ایک زنبیل ہوتا تھا۔ ابو داؤد نے سلمہ بن صخر بیاضی کے قصہ میں بیان کیا ہے کہ حضور : ﷺ نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق چھوارے دے دو اس شخص (یعنی سلمہ بن صخر) نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو برحق بھیجا ہے ہم دونوں رات کو بھوکے رہے ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا حضور : ﷺ نے فرمایا تو بنی زریق کی زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل کے پاس چلا جا وہ تجھے دے دے گا اس میں سے ایک وسق چھوارے تو ساٹھ مسکینوں کو دے دینا اور باقی تو اور تیرے بال بچے کھا لیں۔ الحدیث اخرجہ احمد و ابوداؤد۔ مسئلہ بچہ کو کھانا کھلانا اور دے دینا دونوں جائز ہیں اور قبول بچہ کا ولی کرے گا۔ کیا ایسا بچہ جس نے ابھی کھانا نہ کھایا ہو اس قابل ہے کہ اس کو کفارہ کا کھانا دیا جائے۔ امام اعظم (رح) امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے اور امام احمد کے نزدیک غیر صحیح۔ مسئلہ امام اعظم (رح) کے نزدیک ذمی کافر کو دینا جائز ہے کیونکہ نص (میں لفظ مساکین) مطلق ہے اور دوسری آیت میں اللہ نے خود فرما دیا ہے : (لا ینہاکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین۔۔ ) (یعنی جو کافر تم سے دین کے معاملہ میں نہ لڑے ہوں ان سے دنیوی معاملات میں حسن سلوک کرنے سے اللہ تم کو نہیں روکتا (الخ) جمہور کے نزدیک ناجائز ہے کیونکہ ذمی کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے اور زکوٰۃ لینے کا اہل کافر ذمی نہیں ہے یہ مسئلہ اجماعی ہے لہٰذا کفارہ کو بھی زکوٰۃ پر قیاس کیا جائے گا۔ من اوسط ما تطعمون اہلیکم ” اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو “۔ بغوی نے لکھا ہے مراد یہ ہے کہ اپنے بال بچوں کی بہترین خوراک میں سے۔ میں کہتا ہوں ظاہر یہ ہے کہ درمیانی درجہ کی غذا ہو نہ اعلیٰ نہ ادنیٰ ۔ پس جو دولت مند آدمی اپنے گھروالوں کو لذیذ کھانا کھلاتا ہو اس پر لازم ہے کہ مسکینوں کو بھی وہی کھلائے جو عموماً اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہو۔ آیت مذکورہ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی تائید کر رہی ہے کہ فقیر کو کھانے کی اجازت دے دینا (یعنی بغیر مالک بنائے ہوئے صرف کھانے کی اجازت دے دینا) جائز ہے۔ عبد بن حمید ‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ” من اوسط ما تطعمون اہلیکم “ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے اپنی تنگدستی اور فراخ دستی میں دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے نہ سب سے بڑھیا نہ بالکل گھٹیا۔ اہل کی جمع یاء نون کے ساتھ شاذ ہے کیونکہ لفظ اہل (زید کی طرح) علم نہیں ہے۔ اوکسوتہم ” یا ان کا کپڑا “ یا اس طرح ترجمہ کیا جائے یا اوسط درجہ کا ان کا لباس اوّل صورت میں اطعام پر عطف ہوگا اور دوسری صورت میں من اوسط کے محل پر۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک کم سے کم اتنا کپڑا ہونا چاہئے جس کو پہن کر نماز صحیح ہوجائے۔ ایک قول امام محمد (رح) کا بھی یہی آیا ہے۔ اس صورت میں مرد کے لئے صرف پائجامہ یا تہبند یا (گھنٹوں سے نیچا) کرتا کافی ہوگا اور عورت کے لئے دو کپڑے ضروری ہیں (لمبا) کرتہ اور اوڑھنی۔ امام اعظم (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک کم سے کم اتنا کپڑا ہونا چاہئے جس سے بدن کا بیشتر حصہ چھپایا جاسکے۔ اس لئے صرف پائجامہ کافی نہیں اگرچہ صرف پائجامہ سے نماز ہوجاتی ہے کیونکہ صرف پائجامہ پہننے والے کو رواج میں برہنہ کہا جاتا ہے اور ضرورت ہے لباس پوش بنا دینے کی اور عورت کے لئے ایک لمبا کرتہ بغیر اوڑھنی کے کافی ہے اگرچہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے صحیح نہیں ہے کیونکہ عرف میں ایسی عورت کو برہنہ نہیں کہتے لباس پوش کہتے ہیں۔ ابن مردویہ نے لکھا ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اوکسوتہم سے کیا مراد ہے فرمایا عباء (لمبا ڈھیلا کرتہ) طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے رسول اللہ : ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے کہ ہر مسکین کے لئے ایک عبا (ہونا چاہئے) (امام شافعی (رح) کے نزدیک کسوتہم سے مراد ہے کم سے کم وہ کپڑا جس پر لفظ کسوت کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے صرف عمامہ یا صرف پائجامہ یا صرف معمولی کرتہ جائز ہے۔ صرف ٹوپی کے متعلق شافعیہ کے دو قول آئے ہیں۔ اگر پانچ مسکینوں کو کھانا اور پانچ کو کپڑا دیا تو امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کے نزدیک جائز ہے امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ناکافی ہے۔ او تحریر رقبۃ ” یا بردہ آزاد کرنا۔ رقبۃ (گردن کو کہتے ہیں) مراد ہے انسان (مرد ہو یا عورت) امام اعظم (رح) کے نزدیک قسم اور ظہار کے کفارہ میں کافر غلام یا باندی آزاد کرنا جائز ہے کیونکہ نص (میں رقبۃ کا لفظ) مطلق ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک کافر کو آزاد کرنا کافی نہیں مؤمن ہونا ضروری ہے۔ کفارۂ قتل میں غلام باندی کا مؤمن ہونا ضروری ہے (کیونکہ وہاں مؤمن کی قید آیت میں موجود ہے) اسی پر قیاس کر کے اس جگہ بھی مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں مطلق کو اطلاق پر اور مقید کو تقیید پر رکھا جائے گا کوئی وجہ نہیں کہ ایک کو دوسرے پر قیاس کیا جائے۔ مسئلہ لفظ اؤ کا تقاضا ہے کہ کفارہ کی تینوں قسموں میں سے کوئی ایک قسم واجب ہے اور تعیین کا اختیار کفارہ دینے والے کو ہے ‘ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ جب آیت کفارہ نازل ہوئی تو حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا (تعیین کا) ہم کو اختیار ہے فرمایا تم بااختیار ہو چاہو کپڑا دے دو چاہو کھانا دو اور جس کو (اتنا) کچھ نہ ملے پیہم تین روزے ہیں۔ فمن لم یجد اب اگر کسی کو (تینوں چیزوں میں سے) کچھ میسر نہ آئے یعنی اتنی چیز اس کو نہ ملے کہ قرض ادا کرنے اور اپنے گھر والوں کے کھانے پہننے کے مصارف کے بعد مسکینوں کو کھانا یا کپڑا دے سکے یا بردہ آزاد کرسکے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اہل و عیال کی ضروری حاجات پوری کرنے کے بعد اگر صرف اتنا مال باقی ہو کہ کفارہ کی تینوں قسموں میں سے کوئی قسم ادا کرسکے اور اداء کفارہ کے بعد مزید کچھ باقی نہ رہے تو ایسے شخص کو عاجز نہیں قرار دیا جائے گا۔ حسن اور سعید بن جبیر کا یہی قول ہے۔ ابو الشیخ نے قتادہ ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں وہ صاحب توفیق ہے اس پر کفارہ کی ادائیگی لازم ہے پچاس درہم سے کم رکھنے والا صاحب توفیق نہیں اس کو (قسم کے کفارہ کے لئے) روزے رکھنے چاہئیں۔ ابوالشیخ نے ابراہیم نخعی کا قول نقل کیا ہے کہ بیس درہم رکھنے والا صاحب توفیق ہے مساکین کو (بطور کفارہ) کھانا دینا اس پر واجب ہے۔ مسئلہ غلام کے لئے سوائے روزے رکھنے کے قسم کا کوئی کفارہ نہیں کیونکہ اس کا مال اپنا مال نہیں اس لئے نہ کھانا دے سکتا ہے نہ لباس نہ بردہ آزاد کرسکتا ہے اگر آقا اپنے غلام کی قسم کے کفارہ میں کھانا دے گا یا لباس یا بردہ آزاد کرے گا تو کفارہ نہ ہوگا مکاتب اور مستسعیٰ کا بھی یہی حکم ہے۔ (2) [ اگر غلام کو اس شرط پر آزاد کرنے کا معاہدہ کرلیا کہ جس وقت تو اتنا روپیہ مجھے دے دے گا آزاد ہوجائے گا تو ایسے غلام کو مکاتب کہا جاتا ہے۔ اگر ایک غلام دو آدمیوں کا مشترکاً ہو اور ایک آقا اپنا حصّہ آزاد کر دے تو غلام پورا آزاد ہوجائے اور غلام سے کہا جائے گا کہ آزاد نہ کرنے والے آقا کے حصّہ کی قیمت کچھ محنت مزدوی کر کے ادا کر دے ایسا غلام مستسعیٰ کہلاتا ہے۔] (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top