Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Hud : 4
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَا تَقْتُلُوا
: نہ مارو
الصَّيْدَ
: شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: حالت احرام میں
وَمَنْ
: اور جو
قَتَلَهٗ
: اس کو مارے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مُّتَعَمِّدًا
: جان بوجھ کر
فَجَزَآءٌ
: تو بدلہ
مِّثْلُ
: برابر
مَا قَتَلَ
: جو وہ مارے
مِنَ النَّعَمِ
: مویشی سے
يَحْكُمُ
: فیصلہ کریں
بِهٖ
: اس کا
ذَوَا عَدْلٍ
: دو معتبر
مِّنْكُمْ
: تم سے
هَدْيًۢا
: نیاز
بٰلِغَ
: پہنچائے
الْكَعْبَةِ
: کعبہ
اَوْ كَفَّارَةٌ
: یا کفارہ
طَعَامُ
: کھانا
مَسٰكِيْنَ
: محتاج
اَوْ عَدْلُ
: یا برابر
ذٰلِكَ
: اس
صِيَامًا
: روزے
لِّيَذُوْقَ
: تاکہ چکھے
وَبَالَ اَمْرِهٖ
: اپنے کام (کیے)
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے معاف کیا
عَمَّا
: اس سے جو
سَلَفَ
: پہلے ہوچکا
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر کرے
فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ
: تو اللہ بدلہ لے گا
مِنْهُ
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
ذُو انْتِقَامٍ
: بدلہ لینے والا
مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلہ (دے اور وہ یہ ہے کہ) اسی طرح کا چارپایہ جسے تم میں دو معتبر شخص مقرر کردیں قربانی (کرے اور یہ قربانی) کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ (دے اور وہ) مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہے) یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا (کا مزہ) چکھے (اور) جو پہلے ہو چکا وہ خدا نے معاف کر دیا اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے
یایہا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم اے مسلمانو ! بحالت احرام شکار کو نہ مارو۔ یعنی اس حیوان کو قتل نہ کرو جو اصل خلقت کے لحاظ سے جنگلی اور محفوظ القتل ہو۔ خواہ اس کا گوشت کھایا جاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ کذا فی القاموس۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے صید کی یہی تعریف کی ہے اور یہی مراد لی ہے۔ لیکن ان جانوروں کو حکم سے الگ قرار دیا ہے جن کے قتل کا جواز احادیث میں آگیا ہے یعنی سانپ ‘ بچھو ‘ چوہا ‘ چیل ‘ کوا اور لاگو درندہ ‘ جو لاگو نہ ہو اس کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اسی بناء پر کتے کو خصوصاً کٹ کھنے کتے کو قتل کرنا جائز قرار دیا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ ہر کتا شکار ہے (یعنی اصل خلقت کے اعتبار سے جنگلی ہے) کتے کا پالتو بن جانا عارضی ہے (سکھانے سے پالتو بن جاتا ہے) کچھ لوگ کہتے ہیں کتا طبعاً جنگلی نہیں ہے اس لئے اس کو شکار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا محرم کن جانوروں کو قتل کرسکتا ہے فرمایا ان (مندرجۂ ذیل) جانوروں کو (بحالت احرام) قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے بچھو ‘ چوہا ‘ کوا ‘ چیل ‘ کٹ کھنا کتا ‘ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی انہی پانچ کا ذکر ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ کلب سے مراد درندہ ہے کلب کا اطلاق عام درندہ پر ہوتا ہے عتبہ بن ابی لہب کے قصہ میں رسول اللہ ﷺ نے دعا کی تھی الٰہی اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو (یعنی کسی درندہ کو) اس پر مسلط فرما دے (چنانچہ عتبہ کو شیر نے پھاڑ کھایا) اللہ نے فرمایا ہے من الجوارح مکلبین۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اگر لغتہً لفظ کلب کا اطلاق ہر درندہ پر تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی عرفاً اس لفظ کا غالب استعمال صرف کتے ہی کے لئے ہوتا ہے اور حدیث مذکورہ بالا (یعنی جس حدیث میں پانچ جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت ہے) کو عرف عام پر محمول کرنا اولیٰ ہے (لہٰذا کلب سے مراد کتا ہی ہے ہر درندہ مراد نہیں ہے) ابو عوانہ نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے چھ جانوروں کا ذکر کیا ہے۔ سانپ کا ذکر مزید ہے۔ یہ روایت بطریق بخاری ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا محرم سانپ کو بچھو کو چوہے کو کٹ کھنے کتے کو چیل کو اور عادی درندہ کو قتل کرسکتا ہے کوے کو قتل نہ کرے کوئی اینٹ پتھر اس پر پھینک سکتا ہے۔ ترمذی نے بھی یہ حدیث نقل کی ہے مگر اس روایت میں عادی درندہ کا ذکر نہیں ہے۔ حسن نے کہا جس کوّے کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اس سے مراد کھیتی کا کوا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن المنذر نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو حدیث نقل کی ہے اس میں سات جانوروں کا ذکر ہے۔ پانچ وہی مشہور اور دو مزید یعنی بھیڑیا اور چیتا۔ لیکن ابن خزیمہ نے لکھا ہے کہ حدیث کا اصل لفظ کلب عقور ہے۔ راوی نے اس لفظ کی تشریح میں (اپنی طرف سے) بھیڑیا اور چیتا کہا ہے۔ سعید ؓ بن مسیب کی مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا محرم سانپ اور بھیڑیئے کو قتل کر دے۔ یہ روایت ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصور اور ابو داؤد نے نقل کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ مسلم نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صرف چار کا ذکر کیا ہے مشہور پانچ میں سے بچھو کا ذکر ساقط کردیا ہے۔ ایک شبہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حدیث احاد سے حکم قرآن کی تخصیص جائز نہیں (یعنی اگر حکم قرآن عام ہوگا اور حدیث نے اس میں کچھ تخصیص کی ہوگی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک تخصیص نہیں ہوگی) پھر اس جگہ قرآن میں لفظ صید عام ہے حدیث احاد سے اس کی تخصیص کس طرح جائز ہوگئی۔ جواب اس حدیث کو تمام علمائے امت نے صحیح مانا اور قبول کیا ہے اس لئے اس کا مرتبہ حدیث مشہور کی طرح ہوگیا اور حدیث مشہور سے تخصیص قرآن جائز ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ باجماع صحابہ ؓ یہ بات تو ثابت ہے کہ بعض قسم کے شکار محرم قتل کرسکتا ہے گویا قرآن مجید کا لفظ صید عام ہے مگر مخصوص بالبعض اور اس بعض مخصوص کی تعیین احادیث سے ہوگئی۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد کے نزدیک جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہے اس کو محرم قتل نہیں کرسکتا اور جس جانور کا گوشت حلال نہیں اس کو قتل کرسکتا ہے ممانعت صرف ماکول اللحم صید کو قتل کرنے کی ہے۔ کیونکہ احادیث میں کچھ جانوروں کا حکم حرمت سے تخصیص کی گئی ہے جن میں سے کچھ تو شکاری درندے ہیں کچھ ہلاک کردینے والے کیڑے مکوڑے ہیں کچھ ایسے پرندے ہیں جو درندے اور شکاری نہیں ہیں (جیسے چیل کوا) مگر گوشت ان کا بھی ناپاک (حرام) ہے۔ اس پر غور کرنے سے ہم کو معلوم ہوا کہ خبیث اللحم ہونا جواز صید کی علت ہے لہٰذا تخصیص بالحدیث کرنے کے بعد ہم نے علت قیاسیہ نکال کر قیاس سے حکم جواز انہی جانوروں پر محدود کردیا جو خبیث اللحم ہیں (اور آیت کا حکم حرمت اس شکار پر محدود ہوگیا جو ماکول اللحم ہے) میں کہتا ہوں خبث اللحم کو جواز قتل کی علت قرار دینا ہی غلط ہے کیونکہ گوشت کی ناپاکی کی وجہ سے اباحت قتل کسی مصلحت پر مبنی نہیں ہوسکتی (گوشت کی ناپاکی یا پاکی محرم کے لئے شکار کا جواز یا عدم جواز نہیں پیدا کرسکتی) اس لئے قیاس ہی جائز نہیں ہے۔ میرے نزدیک قابل فتویٰ وہ قول ہے جس کو صاحب بدائع نے اختیار کیا ہے کہ صحرائی جانور کچھ ماکول ہوتے ہیں (یہ تو سب صید ہیں ان کو بحالت احرام شکار کرنا حرام ہے) اور کچھ غیر ماکول۔ غیر ماکول کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو ابتدائی طور پر دکھ پہنچانے والے ہیں کچھ ایسے نہیں ہوتے ابتدائی دکھ پہنچانے وال ‘ غیر ماکول جانوروں کو قتل کرنا جائز ہے جو از صید کی علت مرحجہ ابتدائی اذیت رسانی ہے (یعنی جو جانور عموماً ابتدائی طور پر اذیت رساں ہوتے ہیں ان کو بحالت احرام قتل کرنے درست ہے) ایک روایت میں امام ابو یوسف کا بھی یہی قول آیا ہے کذا فی فتویٰ قاضی خاں۔ ایذاء کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں (1) بدن میں زہر پہنچانا جیسے بچھو کرتا ہے ‘ اس علت میں عقرب (بچھو) کے تحت تمام زہریلے جانور جو ڈنک مارتے اور ڈستے ہیں آگئے۔ (2) کترنا سوراخ کرنا۔ جیسے چوہا کرتا ہے چوہے کے تحت اس علت کی وجہ سے نیولا آگیا ہے۔ (3) جھپٹا مارنا جیسے کوا اور چیل جھپٹا مار کرلے جاتے ہیں اس علت کی وجہ سے شکرا ‘ باز ‘ شاہین وغیرہ چیل کوے کے ذیل میں آگئے۔ (4) حملہ کر کے کاٹنا اس مناسبت سے کٹ کھنے کتے کے تحت ہر درندہ آگیا۔ پالتو پلا چونکہ جنگلی جانور نہیں ہے اس لئے امام صاحب کے نزدیک وہ صید میں داخل نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ پالتو پلا بھی اصلاً جنگلی جانور ہی ہے اس کا پالتو ہونا عارضی ہے۔ اس کے برخلاف وہ چوپائے ہیں جو خلقتاً تو پالتو ہیں لیکن کبھی بھاگ کر جنگلی بن جاتے ہیں (جیسے کوئی گائے بھینس گھوڑا بیل جنگلی بن جاتا ہے) اس کا شمارجنگلی جانوروں میں نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ شکاری کو اشارہ سے شکار بتانا یا ایسی حرکت کرنا جس سے شکاری شکار کو دیکھ لے باجماع علماء قتل کے حکم میں ہے شکار کا جانور جنگلی ہونے اور آنکھوں سے دوررہنے کی وجہ سے قتل ہونے سے محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن اشارہ کرنے والے کے اشارہ کی وجہ سے اس کا امن سے رہنا ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے اشارہ بھی قتل کا حکم رکھتا ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے کہ سب صحابہ ؓ نے احرام باندھا ہوا تھا حضرت ابو قتادہ ؓ محرم نہ تھے ‘ اثناء سفر میں لوگوں نے ایک گورخر دیکھا اور ابو قتادہ نے حملہ کر کے اس کو قتل کردیا اور ذبح کرکے اس کا گوشت لائے اور سب نے وہ گوشت کھایا اس حدیث کے آخر میں ہے کہ صحابہ جب رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم میں سے کسی نے ابو قتادہ ؓ کو حملہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا یا گورخر کی طرف اشارہ کیا تھا ‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی نہیں فرمایا تو جو گوشت باقی رہ گیا ہے اس کو (بھی) کھا سکتے ہو۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے کے جواز کے لئے اشارہ نہ کرنے کی شرط لگائی (جس سے معلوم ہوا کہ محرم کے لئے شکار کی طرف اس طرح اشارہ کرنا کہ غیر محرم کو معلوم ہوجائے اور وہ شکار کرلے جائز نہیں ہے) مسئلہ پرندہ کے انڈوں کا حکم بھی شکار کا ہے۔ داؤد ظاہری کے نزدیک انڈوں کو توڑنے کا کچھ ضمان نہیں۔ اب آگے حدیث اوراقوال صحابہ ؓ ذکر کریں گے جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ انڈوں کو توڑنے کا محرم پر ضمان ہے۔ مسئلہ محرم نے اگر شکار کیا یا ذبح کیا تو جمہور کے نزدیک وہ مردار ہے اسکا کھانا نہ احرام والے کو جائز ہے نہ غیر محرم کو۔ ثوری (رح) اور ابو ثور (رح) اور کچھ دوسرے علماء کے نزدیک اس کو کھانا جائز ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے چور کسی چوری کے جانور کو ذبح کر دے ‘ شافعیہ کا قول بھی یہی ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ محرم کا ذبح کرنا ہی گناہ ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی قصداً ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے لہٰذا محرم کا ذبیحہ ایسا ہی ہوگا جیسے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ ‘ چور کی حالت اس سے غیر ہے ‘ چور اپنے لئے چوری کے جانور کو ذبح کرتا ہے۔ ذبح میں کوئی خرابی نہیں لیکن چونکہ اس جانور سے دوسرے شخص کے حق کا تعلق ہے اس لئے ذبیحہ صحیح ہونے کے باوجود حق غیر کا ضمان دینا پڑے گا اور اس طرح حق غیر کی تلافی ہوجائے گی۔ مسئلہ اگر غیر محرم نے شکار کیا مگر محرم نے اس کو شکار کرنے کو کہا تھا یا اشارہ کیا تھا یا اپنی کسی حرکت سے رہنمائی کی تھی تو محرم کیلئے اس کا کھانا حرام ہے۔ ابو قتادہ ؓ والی حدیث ہم اوپر نقل کرچکے ہیں لیکن غیر محرم کے لئے اس کو کھانا جمہور کے نزدیک حلال ہے۔ ومن قتلہ منکم اور تم میں سے (یعنی احرام بند مسلمانوں میں سے) جس نے شکار کو قتل کردیا۔ معتمدا جان بوجھ کر۔ سعید بن جبیر ‘ داؤد ‘ ابو ثور اور ابو منذر شافعی کا قول ہے اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول آیا ہے کہ متعمداً کی شراط اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اگر غلطی سے یا اپنے احرام کو بھول کر یا کسی کے جبر کرنے سے یا اسی قسم کے کسی اور عذر کی وجہ سے محرم نے شکار کو قتل کردیا تو مندرجۂ آیت ضمان اس پر واجب نہ ہوگا۔ مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ مندرجۂ آیت ضمان اس وقت واجب ہوگا جب قتل قصداً جان بوجھ کر کیا ہو اور اپنے احرام کو بھولا ہوا ہو لیکن اگر احرام کی حالت بھی پیش نظر ہو اور جانتا ہو کہ میں محرم ہوں تو اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ ضمان ادا کرنے سے جرم کی تلافی نہیں ہوگی ایسے آدمی کا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا (خواہ وہ آخرت میں عذاب دے یا رحمت سے معاف فرما دے) ۔ جمہور علماء اور چاروں امام قائل ہیں کہ مندرجۂ آیت پاداش بہرحال واجب ہے خواہ قصداً قتل کیا ہو یا اپنے احرام کو بھول کر قتل کیا ہو یا غلطی سے مارا ہو یا حرمت نہ معلوم ہونے کی حالت میں شکار کیا ہو یا کسی کے اکراہ سے ایسا کیا ہو۔ زہری نے کہا قصداً قتل کرنے والے پر پاداش کا وجوب قرآن سے ثابت ہے اور غلطی سے قتل کرنے والے پر وجوب حدیث میں موجود ہے اور مفہوم مخالف حنفیہ کے نزدیک حجت نہیں ہے (یعنی متعمداً کے لفظ سے یہ مفہوم اخذ کرنا کہ جس نے قصداً نہ قتل کیا ہو اس پر پاداش واجب نہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے) اور جو لوگ مفہوم مخالف کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی مفہوم مخالف ایک ظنی دلیل ہے اور حدیث کی صراحت (خواہ دلیل ظنی کی حیثیت رکھتی ہو مگر) مفہوم مخالف کی ظنیت سے زیادہ قوی ہے (اس لئے حدیث میں جو غلطی سے قتل کرنے والے کے لئے پاداش کو واجب قرار دیا ہے اسی پر عمل کیا جائے گا) پھر اجماع تو سب سے قوی دلیل ہے (اور مخطی یا ناسی کے قتل کو موجب جزاء اجماع نے قرار دیا ہے) کیونکہ اجماع دلیل قطعی ہے (ظنی نہیں ہے) ۔ ابن جوزی نے حضرت جابر ؓ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بجو (کو قتل کرنے) کا مسئلہ دریافت کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ شکار ہے اگر محرم بجو کو قتل کر دے تو حضور ﷺ نے اس کی پاداش میں ایک مینڈھے کی قربانی واجب قرار دی۔ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ جو لوگ حکم جزاء کو مطلق قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک متعمداً کی قید (احترازی نہیں ہے بلکہ) آئندہ آیت وَمَنْ عاد فینتقم اللّٰہ منہ کی تمہید ہے۔ مسئلہ اگر کوئی شخص شکار کرنا چاہتا ہو اور کوئی محرم اس کو زبان سے یا ہاتھ کے اشارہ سے شکار بتادے اور وہ قتل کر دے تو امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کے نزدیک بتانے والے محرم پر پاداش عائد ہوگی امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک بتانے والا گناہ گار نہ ہوگا پاداش اس پر عائد نہ ہوگی جیسے کوئی شخص کسی روزہ دار کو کسی عورت کی طرف زبان یا اشارہ سے رہنمائی کرے اور روزہ دار اس سے جا کر جماع کرلے تو بتانے والے پر کفارہ نہیں پڑے گا نہ روزہ دار کے جماع کرنے سے بتانے والے کا روزہ ٹوٹے گا۔ ہاں بتانے والا گناہگار ضرور ہوگا رہنمائی قتل نہیں ہے اور کفارہ قاتل پر عائد ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں بتانا درحقیقت قتل ہی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کو قتل کے مساوی قرار دیا ہے جیسا کہ ابو قتادہ والی حدیث سے ظاہر ہے پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر بتانے والے پر پاداش عائد نہیں کی جائے گی تو بتانے کا گناہ بتانے والے پر باقی رہے گا۔ کیونکہ بتانا باجماع امت ممنوع ہے اور قتل کا گناہ کفارہ سے دور ہوجاتا ہے اس صورت میں قتل سے زیادہ بتانے کا گناہ قرار پائے گا (جو بداہت کے خلاف ہے) ۔ ایک شبہ اگر بتانا قتل کے مساوی ہے تو بتانے کے بعد بتانے والے پر پاداش کا وجوب ہونا چاہئے خواہ بتانے کے بعد شکاری شکار کو قتل کرے یا نہ کرے۔ جواب بتانا قتل کا سبب ہے جیسے تیر مارنا قتل کا سبب ہے لیکن صرف تیر مارنا موجب پاداش نہیں جب تک شکار مارا نہ جائے اسی طرح بتانے کے بعد اگر شکار قتل نہ کیا جائے تو موجب پاداش نہیں کیونکہ جب تک قتل نہ ہوگا نہ بتانے کو سبب قتل کہا جاسکتا ہے نہ تیر یا پتھر مارنے کو۔ فجزآء مثل ما قتل من النعم تو اس پر پاداش واجب ہے برابر اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جزاءٌپر فاء اس لئے لایا گیا کہ مبتدا معنئ شرط کو مشتمل ہے یعنی اس پر پاداش واجب ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک قربانی کا جانور قیمت میں شکار کے برابر ہونا چاہئے (یعنی مثل معنوی مراد ہے) کیونکہ مطلق مثل تو وہی ہوتا ہے جو صورت اور حقیقت دونوں میں مثل ہو یعنی قربانی کا جانور شکار کا ہم نوع ہو اور یہ بالاجماع مراد نہیں ہے لامحالہ مثل معنوی ہی مراد ہوگا یعنی جو قیمت میں شکار کے برابر ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض قسم کے شکار کی تو بالاجماع قیمت ہی کا حساب لگانا ضروری ہے مثلاً اس جانور کا شکار کیا ہو جس کا اونٹ گائے بھینس بکری مینڈھے وغیرہ میں سے کوئی مثل نہ ہو یا کبوتر سے چھوٹا ہو مثلاً چڑیا ٹڈی وغیرہ ہو لہٰذا مثل معنوی مراد لینا ہی ضروری ہے ورنہ (اگر بعض اقسام میں مثل معنوی اور بعض اقسام میں مثل صوری مراد لیا جائے گا تو) ایک وقت میں ایک لفظ کا حقیقی اور مجازی دونوں معنی مراد لینا یا عموم مشترک مراد لینا لازم آئے گا (یعنی اگر لفظ مثل کو صوری اور معنوی مثلیت میں مشترک قرار دیا جائے گا اور اس لفظ کو ایک ایسے معنی کے لئے موضوع مانا جائے گا جو صوری و معنوی دونوں کے درمیان مشترک ہے اور دونوں معنی بیک وقت مراد لئے جائیں گے تو عموم اشتراک مراد لینا پڑے گا اگر مثل صوری کو حقیقی اور مثل معنوی کو مجازی معنی کہا جائے گا اور دونوں معنی بیک وقت مراد ہوں گے تو حقیقت و مجاز کا اجتماع لازم آئے گا اور احناف کے نزدیک دونوں ناجائز ہیں) ایک بات یہ بھی ہے کہ شرع میں جہاں لفظ مثل بلاقید آیا ہے اس سے مراد یا نوعی مثل ہوتا ہے یا وہ چیز جو قیمت میں برابر ہو اللہ فرماتا ہے : فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اَعْتَدیٰ عَلَیْکُمْاگر کسی نے تم پر زیادتی کی ہو تو جیسی اور جتنی زیادتی اس نے کی ہو اتنا اور ویسا ہی انتقام تم لے سکتے ہو۔ اب اگر ہلاک کردہ چیز کوئی مثلی ہے کہ اس کا نوعی مثل مل سکتا ہے تو ایسی جگہ مثل سے مراد نوعی مثل ہوگا اور نوعی مثل ممکن نہ ہو تو قیمت کے لحاظ سے مثل مراد ہوگا کیونکہ مثل کا لفظ مشترک معنوی ہے (یعنی اس کے معنی کے دو فرد ہیں نوعی اور قیمتی) اور چونکہ حیوانات میں اوصاف کے لحاظ سے تفاوت ہوتا ہی ہے خواہ ایک ہی نوع کے ہیں اس لئے بالاجماع کامل بہمہ جہت مساوات و مثلیت کا تو اعتبار ہی نہیں ہے بلکہ ایک نوع میں داخل ہونے کے باوجود قیمت کی مماثلت کا اعتبار ہے۔ پھر جہاں نوعی اشتراک بھی نہ ہو صرف ظاہری شکل کی مشابہت ہو مثلاً شتر مرغ اور اونٹ کہ دونوں کی گردنیں اور ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں یا شکل میں بھی مشابہت نہ ہو مثلاً کبوتر کو شکار کرنے کے کفارہ میں بکری کی قربانی (حاصل یہ کہ صوری مشابہت کی کوئی ضرورت نہیں خواہ ظاہری شکل میں مشابہت ہوجائے یا نہ ہوجائے اور نوعی اشتراک ہو یا نہ ہو بہرحال قیمت میں مماثلت ہونی چاہئے) ۔ امام مالک (رح) امام شافعی (رح) امام احمد (رح) اور امام محمد (رح) : کا قول ہے کہ مثل سے مراد ہے وہ پالتو چوپایہ (بکری بھیڑ گائے بھینس اونٹ) جو تخلیقی طور پر (اور جسمانیت میں) شکار کے مشابہ ہو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا بجو شکار ہے اور اس کو مارنے میں ایک بکری (کی قربانی) ہے۔ رواہ ابو داؤد بروایت عبداللہ۔ حاکم نے مستدرک میں اور امام احمد اور ابن حبان اور اصحاب سنن نے یہ حدیث حضرت جابر ؓ کی روایت سے نقل کی ہے۔ حاکم کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ بجو شکار ہے اگر احرام بند شخص نے اس کو مارا ہو تو اس کے شکار (کے کفارہ) میں ایک مینڈھا (یعنی اس کی قربانی) ہے حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد کہا ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں نیز امام شافعی نے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بجو کے شکار میں ایک مینڈھا اور ہرن کے شکار میں بکری (بطور کفارہ قربانی کرنے) کا فیصلہ کیا تھا۔ امام شافعی (رح) اور بیہقی نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے جنگلی چوہے کے شکار کے عوض بکری کا نر یا مادہ بچہ قربانی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیہقی کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا حرم کا کبوتر شکار کرنے میں ایک بکری ہے اور دو انڈوں کو توڑنے میں ایک درہم اور شتر مرغ کے شکار میں ایک اونٹ ہے اور نیل گائے میں پالتو گائے (یابھینس) اور گورخر کے شکار میں ایک گائے (کی قربانی) ہے۔ ایک دلیل موال کہ اور شوافع کی یہ ہے کہ اللہ نے آگے من النعم فرمایا ہے۔ نعم سے مراد ہیں اونٹ یا گائے یا بکری۔ یہ مثل کی صفت ہے اور ظاہر ہے کہ قیمت چوپایہ نہیں ہوتی (اس لئے مثل سے مراد قیمت نہیں ہوسکتی) حنفیہ نے مالک (رح) و شافعی (رح) کے استدلال کا یہ جواب دیا ہے کہ مثلیت کے جو اندازے رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور صحابہ ؓ کے آثار میں بیان کئے گئے ہیں ان میں ظاہر شکل کی مشابہت کو دخل نہیں صرف قیمت کا اعتبار کیا گیا ہے۔ رہا من النعم کے لفظ سے استدلال تو یہ بھی غلط ہے من النعممثل کی صفت نہیں ہے بلکہ قتلکا مفعول محذوف ہے ضمیر مفعول سے من النعم حال ہے یعنی مقتول شکار اگر چوپایوں میں سے ہو مطلب یہ کہ اگر مقتول چوپایہ ہو تو اس کی مثل دینا واجب ہے لفظ نعمکا اطلاق جیسے پالتو چوپایوں پر ہوتا ہے اسی طرح جنگلی چوپایوں پر بھی ہوتا ہے۔ کذا قال ابو عبیدہ ؓ ۔ صاحب قاموس نے بھی یہی لکھا ہے۔ حنفیہ کی اس تفسیر پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ کلام کا مقصود تو ہر شکار کی پاداش کا وجوب ہے خواہ شکار چوپایہ ہو یا پرندہ اگر ضمیر مفعول سے من النعم کو حال کہا جائے گا تو پھر پاداش کا وجوب چوپایہ کو شکار کرنے کے ساتھ مخصوص ہوگا اور یہ مقصود کے خلاف ہے۔ میرے نزدیک صحیح تفسیر یہی ہے کہ من النعم مثل کی صفت ہے اور مثل سے مراد وہ پالتو چوپایہ ہے جو قیمت میں شکار کی مثل ہو بعض اوصاف میں مماثلت مراد نہیں ہے۔ شکار کرنے والا محرم اگر جرم کے کفارہ میں قربانی دے تو پالتو چوپایوں میں سے جس کی قیمت شکار کے برابر ہو یا شکار سے زائد ہو اس کی قربانی کرے گورخر نیل گائے اور ہر وہ شکار جس کی قیمت بکری کی قیمت سے زائد ہو۔ گائے کی قربانی کرنا چاہئے خواہ شکار کی قیمت بکری سے تو زائد ہو مگر گائے کی قیمت سے کم ہو اور گائے میں کوئی شرط نہیں کہ بہت بڑھیا ہو یا گھٹیا ‘ مگر اتنی گھٹیا بھی نہ ہو کہ اس کی قیمت شکار کی قیمت سے بھی کم ہو اور اگر شکار کی قیمت گائے سے زائد ہو تو اونٹ کی قربانی کرنی چاہئے ‘ خواہ شکار کی قیمت گائے کی قیمت سے زائد ہونے کے باوجود اونٹ کی برابر نہ ہو اور اگر شکار اونٹ سے بھی زائد قیمتی ہو تو ایک اونٹ اور ایک بکری ‘ یا ایک گائے اور ایک بکری یا ایک اونٹ اور ایک گائے یا دو اونٹ یا دو گائے یا دو بکریاں۔ غرض شکار جتنا قیمتی ہو اس کی قیمت کا لحاظ کر کے قربانی کرے۔ شکار کی قیمت سے کم نہ ہونی چاہئے۔ اگر شکار کی قیمت اس بکری کی قیمت کے برابر ہو جس کی قربانی کرنا جائز ہے (یعنی ناک کان آنکھ ہاتھ پاؤں دم سب سالم ہر طرح سے بےعیب اور شریعت کی قائم کردہ معیار عمر کے مطابق) تو ایسی ہی بکری کی قربانی دے جس کی قربانی جائز ہے۔ اگر شکار کی قیمت پوری بکری کی قیمت سے کم ہو مثلاً بجو ‘ جنگلی ‘ چوہا ‘ ہرن ‘ گرگٹ ‘ گوہ ‘ لومڑی وغیرہ تو بکری کے بچے مختلف عمر کے (جیسے شکار کی قیمت ہو) قربانی میں پیش کرے لیکن بکری کے بچے ایسے ہوں کہ ان کی قیمت شکار کی قیمت سے کم نہ ہو۔ کبوتر اور کبوتر سے کم درجہ کے شکار کے عوض اگر قربانی دینا چاہے تو بکری کی قربانی دے مگر بکری ایسی ہو جس پر لفظ بکری کا اطلاق ہوسکتا ہو (یعنی نہ بےعیب کی شرط ہے نہ کسی عمر کی نہ تندرست کی) ہمارا یہ قول ہمارے نزدیک قابل فتویٰ ہے اور جمہور کے مسلک کے مطابق بھی ہے کیونکہ کفارہ کی قربانی میں جمہور کے نزدیک ایسا جانور ہونے کی شرط نہیں ہے کہ اس کی قربانی بھی جائز ہو۔ مگر امام صاحب کے نزدیک کفارہ کی قربانی ایسی ہونی چاہئے جس کی قربانی شرعاً درست ہو اس لئے جس شکار کی قیمت بکری سے کم ہو مثلاً بجو گرگٹ اس کے کفارہ کے لئے ایسی بکری ہونی ضروری ہے جس کی قربانی جائز ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ شکار کا چھوٹا ہو یا بڑا صحیح سالم ہو یا عیب دار بہرحال کفارہ کی قربانی اس جانور کی دینی صحیح ہوگی جس کی قربانی شرعاً درست ہے (یعنی مقرر کردہ معیار عمر کے مطابق تندرست بےعیب) ۔ امام اعظم (رح) اور امام مالک (رح) کے قول کی دلیل یہ ہے کہ (لفظ) ہدی (مطلق ہے اور مطلق کا رجوع کامل کی طرف ہوتا ہے اور ہدی کامل) وہی ہے جس کی قربانی درست ہو اسی لئے ہدی تمتع میں اور حج کے دوران ان تمام جرائم کے کفارہ میں جن میں قربانی ضروری ہے صرف وہی قربانی دینا جائز ہے جس کی قربانی شرعاً درست ہو۔ ہماری (یعنی جمہور کی) دلیل یہ ہے کہ صحابہ ؓ نے بکری کا چھوٹا بچہ واجب قرار دیا ہے (اور چھوٹے بچے کی قربانی شرعاً درست نہیں ہے) پھر آیت میں لفظ ہدی مطلق نہیں ہے کہ فرد کامل کی طرف رجوع کیا جائے جیسا کہ ہدی تمتع وغیرہ میں ہوتا ہے بلکہ ہدی سے وہ ہدی مراد ہے جو مقتول چوپایہ کی مثل ہو خواہ صورت میں مماثلت ہو جیسا کہ امام شافعی کا قول ہے یا قیمت میں برابری ہو جیسا کہ احناف کا قول ہے۔ لہٰذا قربانی کے قابل جانور ضروری قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم نے آیت کی جو تفسیر کی ہے اس سے صحابہ ؓ کے اقوال کا ٹکراؤ نہیں ہوتا صحابہ ؓ نے خرگوش کے معاوضہ میں بھیڑے کو قرار دیا تھا اور بھیڑے کی قیمت خرگوش کی قیمت کے برابر ہوتی ہے اور چونکہ اونٹ اور گائے میں سب سے کم درجہ کی قربانی بکری ہے اور بکری (یعنی اس کے بچہ) کی قیمت بھی کبوتر کی قیمت کے قریب ہے (یعنی گائے اور اونٹ کی قیمت کبوتر کی قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے بکری کی قیمت اتنی زائد نہیں ہوتی) اس لئے کبوتر کے عوض بکری کی قربانی کو قرار دیا۔ رہا جسمانی مماثلت کا فقدان تو جسمانی مماثلت کی ضرورت پر کوئی دلیل نہیں۔ بیہقی نے عطاء خراسانی کی روایت سے جو حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ :‘ حضرت علی ؓ ‘ حضرت زید بن ثابت ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے اقوال بیان کئے ہیں کہ محرم اگر شتر مرغ کا شکار کرلے تو کفارہ میں اونٹ کی قربانی دی جائے اور امام مالک (رح) نے ابو عبیدہ ؓ بن عبداللہ بن مسعود کا قول بیان کیا ہے کہ میرے باپ کا تحریری قول یہی ہے امام مالک (رح) نے یہ بھی فرمایا میں برابر سنتا رہا ہوں کہ شتر مرغ کے عوض اونٹ کی قربانی ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ شتر مرغ کے عوض اونٹ کی تعیین صرف جسمانی مشابہت یعنی لمبی گردن اور لمبی ٹانگیں ہونے کی وجہ سے کی گئی قیمت کو اس تعیین میں کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ آثار ضعف اور انقطاع سے خالی نہیں ہیں (اس لئے ناقابل استدلال ہیں) امام شافعی (رح) نے کہا یہ روایات علماء حدیث کے نزدیک ثابت نہیں نہ قیاس اس کا شاہد ہے کہ ہم نعامہ کا عوض اونٹ کو قرار دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض قسم کے شتر مرغ بعض زمانوں میں اونٹ کی برابر قیمت رکھتے ہوں اسی لئے بعض صحابہ ؓ نے شتر مرغ کا عوض اونٹ کو قرار دیا اور صحابہ ؓ کے بعد آنے والے لوگوں نے خیال کرلیا کہ صحابی نے شتر مرغ کے عوض اونٹ کو صرف جسمانی مشابہت کی وجہ سے قرار دیا پھر تابعین کے اس خیال کی اتنی شہرت ہوئی کہ امام مالک (رح) نے فرمایا میں برابر سنتا رہا ہوں کہ شتر مرغ کے عوض اونٹ کی قربانی ہے۔ ایک شبہ بیہقی نے عکرمہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں نے بحالت احرام ایک خرگوش مار ڈالا آپ کا میرے متعلق کیا حکم ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا خرگوش چار ہاتھ پاؤں سے چلتا ہے اور بکری کا بچہ بھی چار ارکان سے چلتا ہے خرگوش جگالی کرتا ہے بکری کا بچہ بھی جگالی کرتا ہے خرگوش پتیاں کھاتا ہے بکری کا بچہ بھی سبزی کھاتا ہے لہٰذا خرگوش کے عوض تم بکری کے بچہ کی قربانی دو ۔ یہ اثر صاف بتارہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ظاہری مشابہت کا اعتبار کیا۔ ابن ابی شیبہ نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے ایک کبوتر اور دو کبوتر کے چوزوں کو حجرہ کے اندر بند کردیا بند کر کے عرفات اور منا کو چلا گیا واپس آیا تو دیکھا تینوں مرچکے ہیں وہ شخص حضرت ابن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ عرض کیا ‘ آپ نے اس پر تین بکریوں کی قربانی لازم قرار دی اور آپ کے ساتھ ایک اور شخص نے بھی یہی فیصلہ کیا (کیونکہ قرآنی آیت میں مثلیت کی جانچ کے لئے دو صالح مسلمانوں کی رائے کو ضروری قرار دیا ہے) ثوری (رح) ابن ابی شیبہ (رح) ‘ شافعی (رح) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث بھی اسی جیسی نقل کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبوتر کے عوض بکری کی قربانی کا وجوب قیمت کی یکسائی کے لحاظ سے نہیں ہے ورنہ دو چوزوں اور ایک کبوتر کے عوض ایک بکری بھی کافی تھی بلکہ اس سے زائد کبوتروں کے لئے ایک بکری کافی ہوجاتی۔ ہم کہتے ہیں بعض آثار صحابہ ؓ بیشک دلالت کر رہے ہیں کہ صورت و جسمانیت کا لحاظ رکھا گیا ہے لیکن یہ بات صحابہ ؓ کی رائے پر مبنی ہے کسی روایت (یعنی حدیث) پر اس کی بناء نہیں اور جب قرآنی آیت کی مخالفت ہو رہی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بعض صحابہ کی رائے مانی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (فَجَزَآءُ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ ) اور یہ یقینی امر ہے کہ نہ اونٹ شتر مرغ کی مثل ہے نہ بکری کبوتر کی مثل ‘ نہ جسمانی بناوٹ و صورت میں نہ حقیقت میں ‘ اگر بعض اوصاف میں مشابہت بھی ہے تو وہ ایسی مشابہت ہے جو ناقابل اعتبار ہے نہ عرف میں اس کا اعتبار ہے نہ لغت میں ورنہ تمام حیوانات باہم مثل ہوجائیں گے کسی نہ کسی صفت میں تو ہر ایک کو دوسرے سے مشابہت ہوتی ہی ہے۔ یحکم بہ ذواعدل منکم جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں یعنی پاداش کا فیصلہ یا مثل ہونے کا فیصلہ دو معتبر مسلمان کردیں۔ اکثر حنفیہ قائل ہیں کہ مثل ہونے کی جانچ کے لئے ایک شخص کا فیصلہ بھی کافی ہے۔ بکثرت صحابہ ؓ نے انفرادی فیصلے کئے ہیں یہ انفرادی فیصلے روایات میں آئے ہیں۔ اگر دو کا اجتماعی فیصلہ ہو تو زیادہ اچھا ہے تاکہ غلطی سے بخوبی احتیاط ہوجائے۔ امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک فیصلہ کے لئے تعداد یعنی دو ہونا بھی ضروری ہے اور دونوں کا صالح ہونا بھی ‘ فتویٰ بھی اسی پر ہونا چاہئے۔ حکم آیت کا بھی یہی تقاضا ہے اور عمل صحابہ بھی اسی کا شاہد ہے۔ (1) [ میمون بن مہران کی روایت ہے کہ ایک بدو حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے بحالت احرام ایک شکار مار دیا میں کیا پاداش ادا کروں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے دریافت کیا آپ کی کیا رائے ہے بدو بولا میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ اللہ کے رسول ﷺ کے جانشین ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں اور آپ دوسروں سے پوچھتے ہیں حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کیا تم کو اللہ کے اس فرمان کا انکار ہے اللہ نے فرمایا ہے (یَحْکُم بِہٖ ذَوَاعَدَلٍ مِّنْکُمْ ) اس حکم کی تعمیل میں اپنے ساتھی سے مشورہ لے رہا ہوں جب دونوں کی رائے متفق ہوجائے گی تو ہم ویسا ہی تجھے حکم دے دیں گے۔ ابوبکر مزنی کی روایت میں ہے کہ دو آدمی احرام بند تھے ایک نے ایک ہرن کو ہنکا دیا اور دوسرے نے قتل کردیا پھر دونوں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کی رائے دریافت کی حضرت عبدالرحمن نے کہا میری رائے میں بکری ہونی چاہئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میری بھی یہی رائے ہے پھر فرمایا دونوں بکری کی قربانی دو ۔ جب دونوں واپس لوٹے تو ایک نے دوسرے سے کہا امیر المؤمنین کو جواب معلوم نہ تھا تب ہی تو اپنے ساتھی سے دریافت کیا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بات سن لی فوراً واپس بلوایا اور کہنے والے کا استقبال درہ کی ضرب سے کرتے ہوئے فرمایا ‘ حالت احرام میں شکار بھی مارتے ہو اور شرعی فیصلے سے آنکھیں بھی بند رکھتے ہو اللہ نے فرمایا ہے (یحکم بہ ذواعدل منکم) اللہ نے فیصلہ کے لئے تنہا عمر ؓ کو پسند نہیں کیا اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے مدد لی۔] (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top