Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
وفی انفسکم . اور خود تمہاری ذات میں بھی (اللہ کی نشانیاں ہیں) ۔ وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ : یعنی اے انسانو ! خود تمہارے اندر اللہ کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ انسان عالم صغیر (چھوٹی دنیا) ہے۔ اللہ کی قدرت ‘ حکمت ‘ صنعت اور ربوبیت کی جو نشانیاں عالم کبیر میں ابتداء تخلیق سے لے کر آخری انجام تک وہ ساری آیات انسان کے اندر ہیں۔ آغاز میں تخلیق انسانی بصورت نطفہ تھی۔ پھر نطفہ بستہ خون بنا۔ پھر ایک گوشت کا لوتھڑا ہوا۔ پھر ہڈیاں بنائی گئیں ‘ پھر ہڈیوں کے ڈھانچے کو گوشت کا لباس پہنایا گیا۔ پھر اس میں روح ڈالی گئی۔ پھر بسہولت باہر آنے کا راستہ بنایا گیا۔ باہر آنے کے بعد فراہمی غذا کا انتظام کیا گیا۔ پستان مادر سے دودھ پینا سکھایا گیا اور رفتہ رفتہ دوسری غذاؤں کی طرف آنے اور کھانے کی رہنمائی کی گئی۔ بول و براز اور دوسرے فضلے کو اس کے راستوں سے باہر پھینکا گیا۔ یہ تمام تدبیریں بقاء جسمانی کیلئے کی گئیں۔ اس سے آگے بقاء نسل بھی ضروری تھی تو قوت تولید کو پیدا کیا گیا اور ایک جوڑے کے اختلاط سے سابق کی طرح تیسرے انسان کو بنایا اور پیدا کیا گیا۔ پھر پیغمبروں کو بھیج کر اور آسمان سے کتابیں اتار کر معاد کی طرف جانے کا صحیح راستہ دکھایا گیا۔ انسانوں کی زبانوں یا صورتوں کا ‘ رنگوں کا ‘ طبیعتوں اور مزاجوں کا ‘ عقل و دانش کا ‘ قبولِ حق کی صلاحیتوں کا ‘ راہ حق پر چلنے کی استعدادوں کا۔ پھر درجات قرب اور مراتب معرفت پر فائز ہونے کا عظیم الشان تفاوت اور تعدد ‘ صانع کی نادر صنعت اور بدیع نقوش ہیں جو اہل بصیرت اور معرفت کوش قلوب نظارہ کرتے اور بےساختہ پکار اٹھتے ہیں : تبارک اللہ احسن الخالقین۔ پھر ان اہل عرفان کے سامنے سے تجلیات ذاتیہ و صفاتیہ اور انوار ظلالیہ کے چہروں سے اسرار کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ اسی کی تعبیر حدیث قدسی میں اس طرح فرمائی ہے : ” بندہ نوافل کے ذریعہ سے میرا قرب حاصل کرتا ہے۔ آخر میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ‘ جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں ‘ جن سے وہ دیکھتا ہے۔ “ (الحدیث) اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف کہتا ہے شکر ہے اللہ کا جس نے ہم کو اس کی راہ بتائی ‘ اگر اللہ ہماری راہنمائی نہ کرتا تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے۔ ہمارے رب کے رسول ﷺ حق لے کر آئے تھے۔ افلا تبصرون . پھر کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی اے بےسند باتیں کرنے والو ! کیا تم کو وہ نشانیاں دکھائی نہیں دیتیں جو نیکو کار ‘ اہل یقین کو نظر آتی ہیں۔ اس جملہ کا عطف محذوف جملے پر ہے۔ یعنی کیا تم لوگ قیامت برپا کرنے پر اللہ کی قدرت کا انکار کرتے ہو اور تم کو اللہ کی مذکورہ نشانیاں دکھائی نہیں دیتیں۔
Top