Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 10
فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ : تو اس نے وحی کی اس کے بندے کی طرف مَآ اَوْحٰى : جو اس نے وحی کی۔ وحی پہنچائی
پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا
فاوحی الی عبدہ ما اوحی . پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمائی۔ اوحی اور عبدہٖ کی ضمیریں شَدِیْدُ القوٰی کی طرف راجع ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت انس ؓ سے یہی قول مروی ہے اور عربی قواعد کے لحاظ سے اس میں کوئی سقم بھی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اور اکثر اہل تفسیر نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ شدید القوٰی سے مراد حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) ہیں اور فاستوٰی کی ضمیر بھی حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ ایک روایت میں ذُوْمِرَّۃٍ کا ترجمہ ” خوبصورت “ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے لیکن قتادہ نے اس کا ترجمہ کیا : خوبصورت ‘ طویل القامت اور ھو کی ضمیر راجع ہے رسول اللہ ﷺ کی طرف۔ بغوی نے لکھا ہے جبرئیل ( علیہ السلام) اور محمد ﷺ شب معراج میں مستوی ہوگئے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ھو ضمیر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ جبرئیل ( علیہ السلام) آدمی کی شکل میں دوسرے انبیاء کے پاس آتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس بھی اسی طرح بشکل انسان آتے تھے۔ ایک بار حضور ﷺ نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے فرمایا : آپ مجھے اپنی اصل شکل دکھا دیجئے۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آپ کو اپنی اصلی شکل دو مرتبہ دکھائی۔ ایک بار زمین پر اور ایک بار آسمان پر تو مشرق کی طرف سے نمودار ہوئے۔ اس وقت حضور ﷺ حراء میں تھے۔ افق اعلیٰ سے مشرقی کنارہ مراد ہے۔ جس وقت جبرئیل ( علیہ السلام) مشرقی افق سے برآمد ہوئے تو مشرق سے مغرب تک پورے افق پر چھا گئے۔ حضور اقدس ﷺ یہ منظر دیکھتے ہی بیہوش ہو کر گرپڑے۔ جبرئیل ( علیہ السلام) فوراً آدمی کی شکل میں اتر کر آگئے اور رسول اللہ ﷺ کو چمٹا لیا اور چہرۂ مبارک سے غبار صاف کرنے لگے۔ دوسری بار آسمان میں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس شب معراج میں آپ ﷺ نے جبرئیل ( علیہ السلام) کی اصل شکل دیکھی۔ سوائے رسول اللہ ﷺ کے اور کسی نبی نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو اس شکل میں نہیں دیکھا۔ ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی : یعنی جبرئیل جب زمین کے مشرقی افق پر نمودار ہوئے اور رسول اللہ ﷺ بےہوش ہو کر گرپڑے تو جبریل اتر کر آپ ﷺ کے پاس آئے اور بمقدار قوسین بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب آگئے۔ قوس سے مراد یہی کمان ہے جس سے تیر پھینکے جاتے ہیں۔ مجاہد ‘ عکرمہ اور عطاء کی روایت میں حضرت ابن عباس کا یہی قول آیا ہے۔ چلہ سے کمان کا جتنا فاصلہ ہوتا ہے اتنا فاصلہ ایک قوس سے مراد ہے۔ (دو قوسوں کا فاصلہ اس سے دوگنا ہوگیا) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قَابَ قَوْسَیْنِ : یعنی دو ہاتھ (شرعی دو گز) مقدار سعید بن جبیر ؓ اور شقیق بن سلمہ کا بھی یہی قول ہے۔ قوس ایک ذراع ہوتی ہے جس سے ہر چیز ناپی جاتی ہے۔ بخاری نے اس آیت کی تشریح میں حضرت عائشہ کا یہی قول نقل کیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اسی کے قائل ہیں حضرت ابن عباس حسن ؓ اور قتادہ۔ بعض اہل علم نے کہا : کلام میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے اصل کلام تَدَلّٰی فَدَنٰی تھا کیونکہ نیچے کو اترنا ہی موجب قرب تھا لیکن ظاہر کلام اس قول کے خلاف ہے کیونکہ قرب کا مفہوم عام ہے اوپر سے نیچے اترنے سے بھی قرب ہوسکتا ہے اور بغیر نزول کے کسی مسافت کو طے کر کے منتہیٰ کے پاس پہنچنے کو بھی دُنُوٌّ (قرب) کہتے ہیں۔ جس مسافت کو طے کرنے کا ارادہ ہو اس مسافت کو طے کرنے کے بعد مقصد کے قریب پہنچ جانے کو دنو کہتے ہیں۔ خو اہ قریب آنے والی چیز اوپر سے نیچے کو نہ اتری ہو اور تدلّٰی کا یہ مفہوم بھی ہے کہ منتہیٰ کی جانب پہنچنے کے ساتھ اس چیز کا تعلق مبداء سے قائم رہے۔ جیسے ڈول کی رسّی ہاتھ میں رہتی ہے اور ڈول لٹک کر قعرۂ چاۂ کی طرف جاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : ادلٰی رجلہٗ اس نے اپنے پاؤں تخت سے نیچے لٹکا دیئے اور کہتے ہیں ادلٰی دلوہ اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو وحی جبرئیل (علیہ السلام) کو کی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے وہی وحی اللہ کے بندے کو پہنچا دی۔ یہ تفسیر قانون نحو کے بھی خلاف ہے اور عقل و درایت کے بھی۔ 1) یُوْحٰی یعنی سارا قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا۔ اس کا کوئی حصہ رسول اللہ ﷺ کا خود ساختہ نہیں ہے۔ یُوْحٰی کی ضمیر ذوالحال ہے اور اس کے بعد سارے حال ہیں۔ شَدِیْدُ الْقُوٰی اور فاسْتَوٰی اور وَھُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰی اور ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی یہ سب جملے حال ہیں اور عربی نحو کا ضروری قاعدہ ہے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا ان تمام جملوں کا وقوع مضمون وحی قرآن کے وقت ضرور ہونا چاہیے۔ یعنی قرآن مجید کی ہر آیت جس وقت نازل ہوئی اس وقت جبرئیل کا استواء اور افق اعلیٰ میں موجود ہونا اور قریب آنا اور اتنا قریب آجانا جتنا دو کمانوں کا فاصلہ ہوتا ہے لازماً ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر کسی آیت کے نزول کے وقت یہ حالات نہ ہوں تو حال و ذوالحال کے زمانہ کی تفریق لازم آئے گی یا کچھ آیات کا نزول (اور ساخت) بغیر وحی کے ہونا جائز قرار پائے گا اور جس مضمون کو اِنْ ھُوَ الاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی میں بیان کیا گیا ہے اس کی تکذیب لازم آئے گی۔ 2) دوسرے اَوْحٰی کی فاعلی ضمیر اور عَبْدِہٖ کی مجرور ضمیر دونوں سے مراد اللہ ہے اس لیے اوّل اَوْحٰی کا فاعل بھی اللہ ہی ہوگا۔ جبرئیل نہ ہوگا ‘ ورنہ انتشار ضمائر لازم آئے گا۔ 3) جبرئیل کا رسول اللہ ﷺ کے قریب آنا اور نازل ہونا اور اتنا پاس آجانا جتنا قوسین کا فاصلہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے باعث کمال نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے افضل تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا آسمان میں میرے دو و زیر ہیں جبرئیل اور میکائیل۔ تفسیر دوم کی طرف رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرب اور نزول اور استواء کو اللہ کی طرف منسوب کرنا بعید از فہم ہے ‘ سمجھنے والی بات نہیں ہے لیکن قرآن میں تو کچھ آیات متشابہات بھی ہیں۔ جن کی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا پھر اس آیت کو بھی اگر متشابہات میں سے قرار دیا جائے تو کیا حرج ہے۔ اللہ کا استواء قرب نزول سب کے معانی تو معلوم ہیں لیکن کیفیت معلوم نہیں۔ صرف ارباب القلوب ان صفات کا اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں جس طرح چودہویں کے چاند کو دیکھا جاتا ہے ‘ اس لیے زیادہ مناسب قول اوّل ہی ہے۔ سعید بن جبیر ؓ نے آیت : فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰیکی تشریح میں فرمایا : اللہ نے اپنے بندے کے پاس آیت : اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا سے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ وحی بھیجی۔ بعض علماء نے کہا : اللہ نے یہ وحی بھیجی کہ جب تک آپ جنت میں داخل نہ ہوں گے (دوسرے) انبیاء کے لیے جنت حرام ہے اور جب تک آپ کی امت داخل نہ ہوجائے گی اور امتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ وحی عام ہے ‘ تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔
Top