Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور انہوں نے اس کو ایک بار بھی دیکھا ہے
ولقد راہ نزلۃ اخری . اور انہوں نے (یعنی محمد ﷺ نے) اس کو (یعنی فرشتہ کو اس کی اصلی صورت میں) ایک اور دفعہ بھی دیکھا۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ : یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو یا جبرئیل ( علیہ السلام) کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔ نَزْلَۃً اُخْرٰی : یعنی ایک اور نزول کے وقت نَزْلَۃً سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ اس بار رؤیت نزول اور قرب کی حالت میں ہوئی کیونکہ ممکن واجب کو اسی وقت دیکھ سکتا ہے جب دیکھنے والا انسان امکان کے مرتبۂ انس اور افق اعلیٰ میں ہوا اور واجب مرتبہ تنزیہہ سے کچھ اتر کر درجۂ تشبیہ کی طرف آجائے اور حجاب صفات یا پردۂ ضلال کی آڑ سے اس کو دیکھا جاسکے۔ اس قول سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ واجب کی ذات میں کوئی نئی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ تغیرات سے پاک ہے بلکہ آئینۂ قلب میں جب صفائی پیدا ہوجاتی ہے تو مرتبہ علم میں نزول و عروج ہوتا ہے۔ یہ تفصیلی بحث سورة بقرہ کی آیت : ھَلْ یَنْظُرُوْنَ الاَّ اَنْ یَاْتِیَھُمُ اللہ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ کی تفسیر میں ہم نے ذکر کردی ہے۔ اُخْرٰی : کے لفظ سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ رؤیت صرف دو مرتبہ ہوئی بلکہ اس سے مراد ہے تعداد اور تعداد کا ادنیٰ درجہ چونکہ دو کا عدد ہے۔ اسلئے حضرت ابن عباس ؓ اور کعب الاحبار کے مکالمہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔ اِس آیت میں رؤیت کا ذکر ہے جو شب معراج میں رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوئی تھی۔
Top