Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
انہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
لقد رای من ایت ربہ الکبری . انہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے۔ آیات کبریٰ سے مراد ہیں۔ عجائب ملکوتی جن کی سیر رسول اللہ ﷺ نے شب معراج میں دوران آمدورفت کی تھی۔ براق ‘ آسمان ‘ انبیاء ‘ ملائکہ ‘ سدرۃ المنتہیٰ سب کا شمار عجائب ملکوت میں ہے۔ مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے آیت : لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی پڑھی اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل ( علیہ السلام) کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تھا کہ ان کے چھ سو پنکھ تھے۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے آیت : لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی پڑھی اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے سبز رفرف کو دیکھا۔ جس نے افق کو بند کر رکھا تھا۔ عجائب ملکوت کو آیات کبریٰ کہنے کی خصوصیت اس بناء پر ہے کہ مذکورہ آیات قدرت برکت و رحمت کی فروگاہ تھیں اور انوار و تجلیات کی خصوصی بارش ان پر ہو رہی تھی۔ ورنہ ہر ممکن وجود صانع کی روشن برہان اور واضح دلیل ہے ‘ کسی مصنوع قدرت کو حقیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ ۔ ایک مکھی بھی حقیر نہیں بلکہ ضعیف و خلقت کے لحاظ سے اتنی عظیم الشان ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی طاقت بھی ایک مکھی کی تخلیق نہیں کرسکتی۔ ایک شبہ آیت مذکورہ میں لفظ آیات دلالت کر رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل کو دیکھا تھا ‘ اللہ کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ جبرئیل کو آیت رب کہا جاسکتا ہے اور وہ آیت کبریٰ تھے بھی۔ ذات کو آیات کبریٰ میں داخل نہیں قرار دیا جاسکتا۔ آیات کو دیکھنا بعینہٖ ذات کو دیکھنا نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ازالہ رؤیت آیات رؤیت ذات کے منافی نہیں ہے۔ آیات تو جلوۂ ذات کا آئینہ ہیں۔ آئینہ میں سورج کی جلوہ پاشیاں نظر آتی ہیں۔ مَا طَغٰی کی تشریح میں ہم نے تفسیری مطلب لکھ دیا ہے کہ محبوب سے نظر نہیں ہٹی۔ اس تشریح سے خود ہی معلوم ہوگیا کہ رویت ذات کی حالت میں رویت آیات کو نظر انداز کردیا۔ حقیقت میں رویت آیات کا اصل مقصد ہی رویت ذات تھا۔ آیات تو ذات کا آئینہ تھیں۔ آیات کو دیکھ کر نظر آگے بڑھی۔ ذات تک پہنچی اور وہیں پہنچ کر سمٹ کر رک گئی۔ مسئلہ اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ سیر معراج بیداری میں ہوئی (لیکن کہاں سے کہاں تک اور کیسے ہوئی ‘ اس میں اقوال مختلف ہیں) اہل علم نے صراحت کی ہے کہ مسجد حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک جانا تو قطعی ہے۔ قرآنی صراحت سے ثابت ہے۔ اللہ نے سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی تصریح کے ساتھ فرما دیا ہے۔ اس لیے اس کا منکر تو کافر ہے لیکن ساتویں آسمان تک اور اس سے اوپر جانا قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ صحیح احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (اور احادیث آحاد قطعی نہیں ظنی ہوتی ہیں) اس لیے اس کا منکر فاسق (بحسب العقیدہ) ہے ‘ کافر نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا تو انہی آیات سے ثابت ہے اور قطعی ہے ‘ اس لیے معراج سماوی کا منکر بھی کافر ہے۔ ایک شبہ شیخین نے صحیحین میں بسند شریک بن عبداللہ بیان کیا ہے کہ حضرت انس ؓ بن مالک نے فرمایا : وحی آنے سے پہلے (کا واقعہ ہے کہ) رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں سو رہے تھے ‘ (خواب میں) تین شخص آئے۔ یہ شب معراج کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حضرت انس ؓ نے معراج کا قصہ بیان کیا اور کہا کہ آسمان دنیا میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں دو دریا رواں ہیں (جبرئیل ( علیہ السلام) نے) کہا : یہ نیل و فرات ہیں۔ پھر چل کر اور آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک نہر دکھائی دی جس (کے کنارہ) پر موتیوں کا اور زبرجد کا ایک قصر بنا ہوا نظر آیا (پانی میں) ہاتھ مار کر دیکھا تو وہ پانی (خوشبو میں) خالص مشک (کی طرح) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرئیل ( علیہ السلام) ! یہ کیا ہے ؟ جبرئیل نے جواب دیا : یہ کوثر ہے ‘ جو آپ ﷺ کے رب نے تیار کر رکھی ہے۔ سلسلۂ حدیث کو جاری رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف چڑھا کرلے جایا گیا۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا : اے میرے ربّ ! مجھے گمان نہ تھا کہ مجھ سے کسی کو اوپر اٹھایا جائے گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کو اللہ نے اور اونچا اٹھایا اتنا کہ اللہ کے سوا اور کوئی (اس بلندی سے) واقف نہیں۔ یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے اور جبار رَبّ العزت آپ ﷺ کے قریب آیا ‘ پھر نیچے اترا کہ بمقدار قوسین بلکہ اس سے بھی قریب آگیا۔ پھر جو کچھ وحی کرنا تھی ‘ اللہ نے وحی کی۔ ہر دن رات میں پچاس نمازوں کا وحی کے ذریعہ سے حکم دیا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بار بار رب کے پاس جانے کا مشورہ دیتے رہے (اور آپ ﷺ برابر آتے جاتے اور تخفیف کی درخواست کرتے رہے) آخر پچاس نمازیں (کم ہوتے ہوتے) پانچ رہ گئیں۔ پچاس کی پانچ ہونے پر بھی موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا : محمد ! ﷺ خدا کی قسم میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس سے بھی کم پر تدبیر سے آمادہ کیا لیکن وہ اس سے بھی کمزور ثابت ہوئے۔ آپ ﷺ کی امت تو بنی اسرائیل سے جسم ‘ قلب اور چشم و گوش کے لحاظ سے کمزور ہے ‘ اس لیے آپ ﷺ واپس جا کر اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ ہر مرتبہ موسیٰ کی بات پر مشورہ حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کی طرف التفات فرماتے تھے اور جبرئیل ( علیہ السلام) بھی (تخفیف کی درخواست کو) نامناسب نہیں قرار دیتے تھے۔ پانچویں مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے جب درخواست کی اور عرض کیا : اے میرے ربّ ! میری امت کے جسم بھی کمزور ہیں ‘ دل بھی کمزور ہیں اور چشم و گوش بھی کمزور ہیں ‘ ہمارے لیے تخفیف فرما دے۔ رب العزت نے فرمایا : ” اے محمد ! ﷺ آپ ﷺ نے کہا : میں حاضر ہوں ‘ متوجہ ہوں۔ اللہ نے فرمایا : میں نے لوح میں جو فرض کردیا ہے۔ اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا (لکھ دیا گیا) ہے۔ لوح محفوظ میں تو یہ پچاس ہی ہیں اور تم پر پانچ نمازیں (فرض) ہیں (جب واپس آئے تو) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے پھر وہی بات کہی کہ واپس جا کر اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اب تو بار بار جانے سے مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ اس کے بعد حکم ہوا۔ اب بسم اللہ کر کے نیچے اتر جاؤ۔ اس کے بعد حضور ﷺ بیدار ہوگئے۔ اس وقت مسجد حرام ہی میں تھے۔ یہ بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں۔ مسلم نے واقعہ مختصراً نقل کیا ہے لیکن اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معراج کا واقعہ خواب میں دکھائی دیا تھا۔ بعض اہل حدیث نے اس حدیث کو مجروح قرار دیا ہے اور کہا کہ بخاری و مسلم نے اپنی کتابوں میں جو (واقعۂ معراج کو) خواب کا واقعہ قرار دیا ہے ‘ اس کی تاویل سوائے اس کے کہ روایت کو مجروح قرار دیا جائے اور کوئی ممکن نہیں۔ اس روایت میں غلطی شریک بن عبداللہ کی ہے۔ جس نے اس واقعہ کو نزول وحی (یعنی نبوت) سے پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے ‘ حالانکہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ سیرمعراج نبوت سے تقریباً بارہ سال بعد ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی۔ بعض علماء حدیث کا قول ہے کہ (معراج دو بار ہوئی ‘ ایک بار) نبوت سے پہلے خواب میں جبکہ آپ ﷺ مسجد حرام میں سو رہے تھے اور (دوسری بار) بیداری کی حالت میں ہجرت سے پہلے نبوت کے بارہ سال بعد آپ ﷺ کو سیر معراج کرائی گی تاکہ نبوت سے پہلے کے خواب کی عملی تصدیق ہوجائے جیسا کہ 6 ھ میں حدیبیہ کے سال خواب میں فتح مکہ دکھائی گئی۔ پھر اس کی عملی تصدیق 8 ھ میں ہوگئی اور اللہ نے فرمایا : لَقَدْ صَدَقَ اللہ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا بَالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ۔ رؤیت رب و آیات رب کو ذکر کرنے اور رسول اللہ ﷺ کے قلب کی تصدیق کی صراحت کے بعد اللہ نے آئندہ آیت میں بطور مذمت کافروں کا ذکر فرمایا جو کوتاہ نظر تھے ‘ ان کی نظر مجاز سے آگے حقیقت تک رسائی نہیں رکھتی تھی۔
Top