Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 22
تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى
تِلْكَ : یہ اِذًا قِسْمَةٌ : تب ایک تقسیم ہے ضِيْزٰى : ظلم کی
یہ تقسیم تو بہت بےانصافی کی ہے
تلک اذا قسمۃ ضیری . یہ تو بہت بےڈھنگی تقسیم ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ نے قسمۃ ضیزیٰ کا ترجمہ کیا : قِسْمَۃٌ جَائرۃٌ : (ٹیڑھی ‘ بےجا تقسیم) کہ جو چیز تم کو اپنے لیے پسند نہیں اللہ کے لیے وہ چیز ثابت کر رہے ہو۔ مجاہد اور مقاتل نے ضیزٰی کا ترجمہ ٹیڑھی کیا ہے۔ حسن نے کہا : غیر معتدل۔ ابن کثیر نے ضیزٰی پڑھا ہے۔ ضَءَزَہٗ اس پر ظلم کیا۔ یعنی یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ باقی قراء نے یاء کے ساتھ ضیزیٰ پڑھا ہے۔ کسائی نے کہا : ضَازَ یَضِیْزُ ضَازًا (ضرب یضرب) اور ضاز یَضُوْزُ ضَوْزًا (نصر ینصر) اور ضاز یَضَازُ ضَازًا (سمع یسمع) تینوں (ابواب) کا معنی ہے ‘ ظلم کیا ‘ حق تلفی کی۔ میں کہتا ہوں ‘ ضیزٰی (صفت کا صیغہ) باب نصر سے نہیں ہے بلکہ باع یبیع یعنی ضرب یضرب سے ہے یا نال ینال (یعنی باب فتح) سے ہے۔ ضِیْزٰی : اصل میں بضم ضاد تھا کیونکہ یہ صفت کا صیغہ ہے اور صفت کا صیغہ فاء کلمہ کے کسرہ کے ساتھ یعنی بروزن فعلٰی نہیں آتا یا بضم فاء آتا ہے جیسے حبلٰی اور انثٰی یا بفتح باء بروزن فعلٰی آتا ہے۔ جیسے غضبٰی ‘ سکرٰی ‘ عطشٰی۔ ہاں اسماء میں بکسر فاء یعنی بروزن فعلٰی آتا ہے جیسے ذکرٰی ‘ شعرٰی (باوجود صیغۂ صفت ہونے کے) اس جگہ ضاد کو کسرہ دیا گیا کہ اگر ضاد کو ضمہ دیا جاتا تو یاء کو واؤ سے بدلنا پڑتا اور ضوزٰی ہوجاتا اور اس صورت میں معلوم نہ ہوا کہ اصل مادۂ اشتقاق وادی ہے یا یائی۔ (اسی طرح ابیض کی جمع بیض بکسر ب آتی ہے اور اصل میں یہ بھی بضم ب ہے جیسے حمر ‘ صفر کیونکہ بضم بَ ہونے سے ی کو واؤ سے بدلنا لازم ہوجاتا اور پھر معلوم نہ ہوتا کہ اس کا مادہ وادی ہے یا یائی) ۔
Top