Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 38
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ
اَلَّا : کہ نہیں تَزِرُ وَازِرَةٌ : بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : بوجھ کسی دوسرے کا
یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
الا تزرو وازرۃ وزر اخری . کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ اَلاَّ تَزِرُ : یعنی کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا۔ بغوی نے بوساطت عکرمہ ‘ حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے جو لوگ مجرم کے جرم کی پاداش میں غیر مجرم کو پکڑلیتے تھے اور اگر کسی کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بیوی یا غلام نے قتل کیا ہو تو اس کے عوض اس شخص کو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کو اس حرکت سے روکا اور اللہ کا حکم پہنچایا کہ کسی کے جرم کا بار دوسرے پر نہ ڈالا جائے۔ میں کہتا ہوں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا رواج کوئی شرعی قانون نہیں تھا بلکہ ایک جاہلی رواج تھا ‘ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے قبائل اوس و خزرج کا رواج تھا ‘ ایک قبیلہ جب دوسرے قبیلہ سے زیادہ باعزت اور مالدار ہوتا تھا اور اس کی کسی عورت کو حریف قبیلہ مار ڈالتا تھا تو شریف قبیلہ والے کمزور قبیلہ کے کسی مرد کو مقتول عورت کے عوض قتل کرتے تھے اور غلام مارا جاتا تھا تو دوسرے قبیلے کے کسی آزاد مرد کو قتل کرتے تھے اور ایک مرد مارا جاتا تھا تو انتقام میں دو آدمیوں کو قتل کرتے تھے۔ اس رواج کو منسوخ کرنے کے لیے آیت : اَلْحُرُّ بالْحُرِّ وَالْعَبْدِ بالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بالْاُنْثٰی نازل ہوئی۔ سورة بقرہ میں ہم نے اس آیت کی تشریح کردی ہے۔ شبہ ایک اور آیت آئی ہے : کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓاِسْرَآءِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا بظاہر آیت : لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی اس آیت کے مخالف ہے۔ اس کے علاوہ امام احمد (رح) اور امام مسلم (رح) نے حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّءَۃً فَلَہٗ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ ۔ (جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر خود اس طریقہ پر عمل کرنے کا بھی گناہ ہوگا اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی اس پر ہوگا) یہ حدیث بھی آیت لا تزر کے خلاف ہے۔ ازالہ آیت مَنْ قَتَلَ نَفْسًا .... اور حدیث مَنْ سَنَّ سُنَّۃً .... کا مقصد یہ ہے کہ مرتکب قتل اور سنت سیۂ کا موجد خود تو گناہگار ہوتا ہی ہے لیکن اس کا فعل چونکہ دوسروں کے مجرم اور گناہگار بننے کا سب ہوتا ہے ‘ اس لیے اس کا جرم دوگنا ہوجاتا ہے (یہ مطلب نہیں کہ آنے والے مجرموں کا جرم اس پر ڈال دیا جائے گا اور ان کو گناہ سے آزاد کردیا جائے گا) اسی لیے حدیث کے آخر میں فرمایا ہے : من غیر ان ینقص من اوزارھم شیءًا (بغیر اس کے کہ آئندہ اس طریقہ قبیحہ پر چلنے والوں کے بارے میں کوئی تخفیف کی جائے) ایک اور آیت آئی ہے : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَۃً (اُس عذاب سے ڈرو جو صرف ظالموں پر ہی نہیں آئے گا بلکہ عمومی ہوگا ظالم اور غیر ظالم سب پر آئے گا۔ ) اسی طرح ایک حدیث مبارک میں آیا ہے جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو (اچھے ‘ برے) جو لوگ بھی اس کے اندر ہوتے ہیں سب پر وہ عذاب آتا ہے۔ پھر قیامت کے دن ان کے اعمال کے موافق (الگ ‘ الگ) ان کو اٹھا لیا جائے گا۔ (رواہ البخاری و مسلم من حدیث ابن عمر) حضرت ابوبکر ؓ کی روایت سے اصحاب السنن الاربعہ نے ایک حدیث نقل کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر جب لوگ اس کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ کا عذاب سب پر عموماً آجائے۔ ان دونوں حدیثوں کا اور آیت : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃُ.... . . .. کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے خود تو گناہوں کا ارتکاب نہیں کیا لیکن امر بالمعروف کو ترک کردیا اور مجرموں کو گناہ سے نہیں روکا وہ بھی عذاب کے دائرے میں آجائیں گے۔ مسئلہ : کیا میّت کے گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے ؟ علماء سلف کا اس میں اختلاف ہے ‘ صحیحین میں حضرت عبداللہ ؓ بن ملیکہ کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ بن عفان کی ایک لڑکی کا مکہ میں انتقال ہوگیا۔ ہم جنازہ میں شرکت کے لیے گئے۔ وہاں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس بھی موجود تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے عمر بن عثمان سے کہا : کیا تم رونے سے باز نہیں آؤ گے ؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضور ﷺ ایسا فرماتے تو تھے۔ پھر حضرت ابن عباس کی ایک حدیث بیان کی اور فرمایا : جب حضرت عمر ؓ زخمی ہوگئے تو صہیب ؓ رونے لگے اور کہنے لگے : ہائے بھائی ! ہائے بھائی ! حضرت عمر ؓ نے فرمایا : صہیب ؓ ! کیا تم مجھ پر رو رہے ہو باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ گھر والوں کے بعض کے گریہ کرنے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب حضرت عمر کی وفات ہوگئی تو میں نے اس حدیث کا ذکر حضرت عائشہ ؓ سے کیا۔ امّ المؤمنین نے فرمایا : عمر ؓ پر اللہ کی رحمت ہو۔ خدا کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ فرمایا کہ کافر کے گھر والوں کے رونے سے اللہ کافر کا عذاب بڑھا دیتا ہے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : تمہارے لیے قرآن کی یہ آیت کافی ہے : لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : اللہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔ ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے اس پر حضرت عمر ؓ نے کچھ نہیں کہا (یعنی تردید نہیں کی) ۔ میں کہتا ہوں حضرت عائشہ ؓ نے جو حضرت عمر ؓ کے بیان کی تغلیط کی ‘ وہ کمزور ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ ‘ حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ فقیہ (واقف شریعت) تھے اور حضرت عمر ؓ کی شہادت ‘ شہادت اثبات ہے (جو شہادت نفی کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے) اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ کی روایت کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا بیان ہے ‘ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ‘ جس پر نوحہ کیا جاتا ہے اس نوحہ کی بقدر اس پر عذاب ہوتا ہے۔ ابو یعلی نے حضرت ابوبکر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مردہ کے) کنبہ والوں کے رونے کی وجہ سے میّت پر گرم پانی ڈالا جاتا ہے۔ اسی قسم کی احادیث ابن حبان کی صحیح میں حضرت انس ؓ اور حضرت عمران بن حصین کی روایت سے اور طبرانی نے حضرت سمرہ بن جندب کی روایت سے اور ابو یعلی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ والی حدیث صحیح ہے۔ رہا احادیث مذکورہ کا آیت مذکورہ سے تعارض تو اس کو دور کرنے کے لیے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ متعلقین کے رونے سے میت پر عذاب ہونا کافر کے لیے ہوتا ہے یا رونے کی وصیت کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ محض رونے کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ بِبُکَاءِ اَھْلِہٖ میں با حالیہ ہے۔ یعنی گھر والوں کے رونے کے وقت میت پر عذاب ہوتا ہے۔ (بَ سببیہ نہیں ہے) ۔ امّ المؤمنین کے دونوں قول ناقابل فہم ہیں۔ اگر متعلقین کے رونے کی وجہ سے میت پر عذاب ہونا صرف کافروں کے لیے مخصوص قرار دیا جائے تو آیت سے تعارض اس صورت میں بھی دور نہیں ہوتا۔ آیت کا حکم تو ہر مؤمن و کافر کے لیے عام ہے اور بعض روایات کے لحاظ سے حدیث مذکور کے بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ببکاءِ کی بَ کو حالیہ کہنا درست نہیں ہوسکتا۔ متعلقین کے رونے کی وجہ سے میت پر گرم پانی کا عذاب مسلط ہونا تو آخرت ہی میں ہوسکتا ہے۔ یہ عذاب دوزخ ہی میں ہوگا بکاء متعلقین کے وقت یہ عذاب ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عذاب دینے سے مراد ہے ملائکہ کا میت کو زجر و تنبیہ کرنا۔ ترمذی ‘ حاکم اور ابن ماجہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ جس میت پر نوحہ کرنے والی عورت نوحہ کرتی اور کہتی ہے : واجبلاہ ‘ واسیداہ اور اس قسم کے دوسرے الفاظ تو اللہ کی طرف سے دو فرشتے اس پر مقرر کیے جاتے ہیں جو میت کو جھڑکتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تو ایسا تھا۔ میں کہتا ہوں اس تاویل پر بھی تعارض دفع نہیں ہوتا کیونکہ دوسرے کے فعل پر میت کو جھڑکنا بھی لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی کے خلاف ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ متعلقین کے فعل سے میت کو رنج اور دکھ ہوتا ہے۔ طبرانی اور ابن ابی شیبہ نے قیلہ بنت مخرمہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ قیلہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنے مرے ہوئے لڑکے کا ذکر کیا اور رونے لگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کوئی ہے جو اس چیخنے والی کو زبردستی چپ کرا دے۔ اللہ کے بندو ! اپنے مردوں کو تکلیف نہ دو ۔ ابن جریر نے اسی قول کو پسند کیا ہے اور تمام ائمہ (رح) نے جن میں ابن تیمیہ (رح) : بھی ہیں ‘ اسی تاویل کو اختیار کیا ہے۔ سعید بن منصور راوی ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے کچھ عورتوں کو ایک جنازہ کے ساتھ دیکھا ‘ فرمایا : (لوٹ جاؤ ‘ بار گناہ اٹھانے والیو ‘ ثواب نہ پانے والیو ‘ زندوں سے آگے بڑھ کر مردوں کو دکھ نہ پہنچاؤ۔ “ دفع تعارض کی صحیح صورت یہ ہے کہ حدیث میں میت پر عذاب ہونے سے اس میت پر عذاب ہونا مراد ہو جو (اپنی زندگی میں) مردے پر رونے کا عادی تھا یا جس نے اپنے مرنے کے بعد گھر والوں کو نوحہ کرنے کی وصیت کی ہو یا وصیت نہ بھی کی ہو لیکن اس کو معلوم ہو کہ میرے مرنے کے بعد گھر والے نوحہ کریں گے اور باوجود اس علم کے ان کو پس مرگ نوحہ کرنے سے منع نہ کیا ہو۔ اس توجیہ پر میت پر عذاب ہوگا وہ میت کے اپنے جرم کی وجہ سے ہوگا ‘ دوسرے کے گناہ کا بار اس پر نہ ہوگا۔ امام بخاری (رح) نے اسی قول کو پسند کیا ہے۔
Top