Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
فکان قاب قوسین او ادنی . سو دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔ اس جگہ ” او “ کا ترجمہ یا (شکیہ) نہیں ہے بلکہ او بمعنی بل ہے جیسے آیت : فَاَرْسَلْنَا اِلٰی مِأَۃٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ میں او کا معنی ہے (بلکہ) صوفیہ نے کہا کہ دو کمانوں سے مراد ہے قوس امکان اور قوس وجوب۔ صوفی مرتبہ قرب میں قاب قوسین کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس کی نظر دونوں قوسوں (دائرۂ مکان اور دائرۂ وجوب) کی طرف ہوتی ہے لیکن مرتبہ ادنیٰ (اقرب) پر پہنچتا ہے تو اس کی نظر سے قوس امکان پوشیدہ ہوجاتی ہے۔ اس کو اپنی ہستی کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ قَابَ ‘ قَیْبَۃٌ قَاو اور قَیْدٌ سب کے معنی ہیں : مقدار ‘ اس جگہ انتہائی قرب سے کنایہ ہے۔ عرب کا رواج تھا کہ جب دو شخص آپس میں دوستی کا معاہدہ کرتے تھے اور خصوص و مؤدت کا اظہار کرنا چاہتے تھے تو ہر ایک اپنی کمان لاتا اور دوسرے کی کمان سے چمٹا کر رکھ دیتا تھا۔ اس سے اس امر کا اظہار مقصود ہوتا تھا کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے حمایتی اور ہر طرح کے مددگار ہیں اور اتنے ہی قریب ہیں جیسے یہ دو کمانیں۔ یہاں قاب قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی سے مراد باری تعالیٰ کے قرب کا مرتبہ ہے جس کا ادراک ایک عارف ہی کرسکتا ہے۔ جس نے مرتبۂ قرب کا مزہ نہ چکھا ہو وہ کیا جانے۔ کتب تصوّف میں ان درجات کا ذکر ان گنت الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ضحاک نے کہا : (دَنٰی فَتَدَلّٰی کی ضمیریں رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہیں) آیت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رب سے قریب ہوئے۔ پھر (سجدہ کے لیے) جھکے۔ اس قول پر ضمیروں کا انتشار لازم آئے گا۔ (اس لیے یہ قول درست نہیں ہے) ۔
Top