Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 27
وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ
وَّيَبْقٰى : اور باقی رہے گی وَجْهُ رَبِّكَ : تیرے رب کی ذات ذُو الْجَلٰلِ : بزرگی والی وَالْاِكْرَامِ : اور کرم والی
اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی
و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اور آپ کے پروردگار کی ذات جو عظمت و احسان والی ہے ‘ باقی رہ جائے گی۔ وَ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ : وجہ رب (ربّ کا چہرہ) متشابہات میں سے ہے (یعنی ایسا مبہم ہے جسکا علم عام طور پر مخلوق کو نہیں ہوسکتا) ۔ ذُوالْجَلاَلِ : عظمت اور تسلط والا ‘ سب سے بےنیاز وَالْاِکْرَامِ : الاکرام ‘ ہمہ گیر فضل۔ وَجْہُ رَبِّکَ کا عطف کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ پر ہے۔ فَانٍ کا لفظ بتارہا ہے کہ فنا مخلوق کے لیے مخصوص ہے (اللہ فانی نہیں ہے) اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس آیت میں وجہُ سے مراد جہت ہے تاکہ معطوف اور معطوف علیہ میں مناسبت پیدا ہوجائے۔ (اس صورت میں وجہُ کا لفظ متشابہات میں سے نہیں ہوگا) ۔ ایک شبہ اس جگہ عطف بر بناء مقابلہ ہے۔ فناء خلق اور بقاء خالق میں تقابل ہے ‘ مناسبت اور مقارنت باعث عطف نہیں ہے۔ ازالہ اگر ایسا ہوتا تو فنا کو کائنات ارضی کے لیے مخصوص نہیں کیا جاتا۔ جب وجہ کو بمعنی جہت مانا جائے تو کلام کا حاصل مطلب اس طرح ہوگا : ” رُوئے زمین پر جو جن و انس بستے ہیں وہ اپنی ذات و وجود کے اعتبار سے ہیچ ہیں ‘ ان کی بقاء کا کوئی رخ نہیں ‘ ہر جہت سے فنا ان کے دامن گیر ہے۔ ہاں ! رب کی طرف متوجہ ہونے کا اُ نکا رخ غیر فانی ہے۔ نسبتِ رب ان کی باقی رہنے والی ہے ‘ اس کو فنا نہیں۔ “ اللہ نے فرمایا ہے : قل ما یعبابکم ربی لولا دعاء کم : ذوالجلال والاکرام اللہ کی عظیم الشان صفت ہے۔ ترمذی نے حضرت انس کی روایت سے اور احمد و نسائی و حاکم نے حضرت ربیعہ بن عامر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یا ذوالجلال والاکرام کا ہمیشہ ورد رکھو۔ حصن حصین میں آیا ہے کہ ایک شخص یا ذوالجلال والاکرام کہہ رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا ‘ فرمایا : (اب) تیری دعا قبول ہوگی۔ سوال کر (جو کچھ مانگنا ہے ‘ مانگ لے) یا ذوالجلال والاکرام کا ورد انسان کا اعلیٰ وصف و خصوصیت ہے۔
Top