Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 34
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
فبای الا ربکما تکذبان . سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔ “ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ : یعنی اللہ کی نعمتوں کی تکذیب نہ کرو۔ تکذیب موجب عذاب ہے اور تم عذاب سے بھاگنے کی قوت نہیں رکھتے بعض اہل علم کا قول ہے کہ تنبیہ ‘ تخویف اور باوجود کامل قدرت رکھنے کے درگزر کرنا اور معاف کردینا یہ سب کچھ اللہ کی نعمت ہے اور عقلی معراج اور تمام ترقیات اور ایسے اسباب ترقیات کہ ان کے ذریعہ سے لوگ آسمانوں سے بھی اوپر پہنچ جائیں ‘ ان کا شمول بھی اٰلاء اللہ میں ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مخلوق کا احاطہ ملائکہ اور آگ کے بھڑکتے شعلوں سے کردیا جائے گا پھر آوا زدی جائے گی : اے گروہ انس و جن ! اگر آسمان و زمین کے کناروں کو پار کر کے نکل سکتے ہو تو نکلو۔ مندرجہ ذیل آیت کا مطلب یہی ہے۔
Top