Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 48
ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍۚ
ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ : ہری بھری ڈالیوں والے
ان دونوں میں بہت سی شاخیں (یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں)
ذواتا افنان ” اور وہ دونوں باغ کثیر ٹہنیوں والے ہوں گے ‘ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ : ذو مذکر کے لیے آتا ہے۔ ذو اصل میں ذو و تھا ‘ ذات مؤنث کے لیے آتا ہے۔ اس کی اصل ذوات تھی ‘ ذوات کا تثنیہ ذواتا آتا ہے اور تخفیفاً جمع کے لیے بھی ذوات کا لفظ مستعمل ہے۔ اَفْنَانٍ فَنَن کی جمع ہے۔ فنن ‘ نرم ٹہنی جو درخت کی شاخوں سے نکلتی ہے۔ برگ و بار کی پیدائش اور درخت کی سایہ آفرینی ٹہنیوں سے ہی ہوتی ہے۔ مجاہد اور کلبی نے افنان کا یہی معنی بیان کیا ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ فنن ‘ ٹہنیوں کے اس سایہ کو کہتے ہیں جو باغ کی دیواروں پر پڑتا ہے۔ حسن نے ذواتا افنان کا ترجمہ کیا ہے : ذواتا اظلالٍ (سایہ دار) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افنان ‘ فن کی جمع ہو یعنی رنگا رنگ کے پھلوں اور قسم قسم کے درختوں والیاں۔ عرب کہتے ہیں : افنن فلان فی حدیثہ ‘ فلاں شخص نے اپنی گفتگو میں طرح طرح کی اور رنگ رنگ کی باتیں کہیں۔ سعید بن جبیر اور ضحاک کا یہی قول ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔
Top