Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 72
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ
حُوْرٌ : حوریں مَّقْصُوْرٰتٌ : ٹھہرائی ہوئیں۔ روکی ہوئیں فِي الْخِيَامِ : خیموں میں
(وہ) حوریں (ہیں جو) خیموں میں مستور (ہیں)
حور مقصورٰت فی الخیام وہ عورتیں گورے رنگ کی ہوں گی (اور خیموں میں محفوظ ہوں گی حور ‘ حوراء حوراء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں کا حدقہ (پتلی) خوب سیاہ ہو اور سفیدی بجائے خود خوب سفید اور سیاہی بجائے خود خوب سیاہ ہو اور پلک چمکدار ہوں اور پلکوں کے گر داگرد سفیدی ہو اور بدن گورا ہو یا پوری آنکھ ہرن کی طرح چمکیلی سیاہ ہو ‘ ایسی آنکھ انسان کی نہیں ہوتی۔ مجازاً اس کا استعمال عورتوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ (کذا فی القاموس) طبرانی نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حورعین کی بدنی ساخت زعفران سے کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ حدیث بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے مرفوعاً اور حضرت ابن عباس ؓ و مجاہد کی روایت سے موقوفاً نقل کی ہے۔ ابن مبارک کا بیان ہے کہ زید بن اسلم نے کہا : اللہ تعالیٰ حورعین کو مٹی سے نہیں پیدا کرتا بلکہ ان کی ساخت مشک و کافور اور زعفران کی ہے۔ ابن ابی الدنیا نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر حور سمندر میں تھوک دے تو سارے سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہوجائیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اہل جنت کی عورتوں میں سے اگر کوئی عورت سات سمندروں میں تھوک دے تو سارے سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہوجائیں۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے اندر اتنی مقدار جنتی تم میں سے کسی کی کمان کے نصف وتر کی ہوتی ہے دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے اور جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو (زمین تک ساری درمیانی مسافت) روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سر کی اوڑھنی دنیا اور موجودات سے بہتر ہے۔ (رواہ البخاری) ابن ابی الدنیا نے کعب کا قول نقل کیا ہے کہ اگر حور کا ایک ہاتھ آسمان سے نیچے کی طرف لٹکا دیا جائے تو ساری زمین اس کی وجہ سے ایسی روشن ہوجائے جیسے سورج دنیا والوں کے لیے چمکتا ہے۔ مَقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ : چھپی ہوئی محفوظ مسہریوں میں۔ بغوی نے (مقصورات کے معنی کی تشریح کرتے ہوئے) لکھا ہے کہ وہ حوریں جنہوں نے اپنی نظریں صرف اپنے شوہروں پر منحصر اور مقصور کر رکھی ہوں گی ‘ شوہروں کے علاوہ دوسروں پر وہ نگاہ بھی نہیں ڈالیں گی۔ بیہقی نے مجاہد کا قول بیان کیا ‘ مقصورات یعنی خیموں کے اندر بند اور محفوظ ہوں گی ‘ وہاں سے نہیں ہٹیں گی اور خیمہ موتی اور چاندی کا ہوگا۔ بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شب معراج میں جنت کے اندر ایک جگہ پہنچا ‘ جس کو بیدح کہا جاتا ہے ‘ وہاں موتی ‘ زبرجد ‘ سبز اور یاقوت سرخ کے خیمے ہیں (اندر سے حوروں نے کہا :) السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے کہا : جبرئیل ! یہ آواز کیسی ہے (جس نے مجھے خطاب کیا) جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا : یہ خیموں کے اندر مستور حوریں ہیں ‘ انہوں نے اپنے رب سے آپ ﷺ کو سلام کرنے کی اجازت مانگی تھی ‘ اللہ نے ان کو اجازت دے دی۔ حوریں کہنے لگیں : ہم (ہمیشہ) رضامند رہیں گی ‘ کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔ ہم یہاں ہمیشہ رہیں گی ‘ کبھی (یہاں سے) کوچ نہیں کریں گی (یہ بیان کرنے کے بعد) حضور ﷺ نے حور مقصورات فی الخیام پڑھا۔ بغوی نے حضرت عبداللہ بن قیس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے اندر ایک خیمہ ہے ‘ کھوکھلے موتی کا ‘ جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے ‘ اس کے ہر گوشے میں رہنے والے دوسروں کو (یعنی دوسرے گوشہ میں رہنے والوں کو) نظر نہیں آتے۔ اہل ایمان ان سب کا دورہ کریں گے (یعنی یہ سب مؤمنوں کے زیر حکم ہوں گے) صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے بھی اسی طرح کی حدیث آئی ہے۔ ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ خیمہ ایک کھوکھلے موتی کا ہوگا۔ ایک فرسخ چوڑا اور ایک فرسخ لمبا ہوگا ‘ اس کے چار ہزار کواڑ ہوں گے ‘ سونے کے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خیمے کھوکھلے موتی کے ہوں گے۔ حضرت عمر کی موقوف حدیث بھی اسی طرح آئی ہے۔ ابن جریر نے ابو مجلز کی مرسل حدیث بھی ایسی ہی نقل کی ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابو درداء کی روایت سے بیان کیا ہے کہ خیمہ ایک موتی کا ہوگا ‘ جس میں موتی کے ستّر دروازے ہونگے۔ ہناد نے حضرت عمرو ؓ بن میمون کا قول نقل کیا ہے کہ خیمہ کھوکھلے موتیوں کا ہوگا۔ مجاہد اور ابن احوص کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن ابی الدنیا نے حضرت ابن مسور کا قول نقل کیا ہے کہ ہر مسلم کا ایک منتخب پسندیدہ مقام ہوگا اور ہر پسندیدہ مقام میں ایک خیمہ ہوگا اور ہر خیمہ کے چار دروازے ہوں گے اور ہر دروازہ سے ہر روز ایک تحفہ اور ہدیہ داخل ہوگا ‘ جو اس سے پہلے نہ آیا ہوگا (یعنی نو بنو حوریں ہوں گی) نہ اترانے والیاں ہوں گی ‘ نہ غرور کرنے والیاں ‘ نہ گندہ بغل ‘ نہ گندہ دہن۔ حُوْرٌ عِیْنٌ کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ۔ فائدہ دنیا کی عورتیں حوروں سے بہتر ہوں گی۔ بیہقی نے بیان کیا کہ حضرت امّ سلمہ ؓ نے فرمایا ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ دنیا کی عورتیں اعلیٰ ہیں یا حوریں ؟ فرمایا : دنیا کی عورتیں حورعین سے ایسی ہی افضل ہیں جیسا ابراء ‘ استر سے اعلیٰ ہے۔ میں نے عرض کیا : ایسا کس وجہ سے ہے ؟ فرمایا : ان کے نماز ‘ روزے کی وجہ سے ہے ‘ اللہ ان کے چہروں کو نور کا لباس پہنا دے گا (نورانی کر دے گا) اور ان کے جسموں کو ریشم کا لباس پہنا دے گا ‘ ان کے رنگ گورے ‘ کپڑے سبز اور زیور زرد ہوں گے ‘ ان کی انگیٹھیاں موتی کی اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی ‘ وہ کہیں گی ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں۔ ہم کبھی بھی نہیں مریں گی ‘ ہم آرام پروردہ ہیں ‘ کبھی دکھی نہیں ہوں گی ‘ ہم یہاں ہمیشہ مقیم رہیں گی ‘ کبھی یہاں سے کوچ نہیں کریں گی ‘ ہم ہمیشہ رضامند رہنے والیاں ہیں ‘ کبھی ناراض نہیں ہوں گی ‘ خوش ہو اس کے لیے جس کے لیے ہم ہیں اور جو ہمارے لیے ہے ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ اگر کسی عورت نے دو یا تین یا چار شوہر کیے ہوں اور پھر مرجائے اور جنت میں چلی جائے اور اس کے سب شوہر بھی جنت میں چلے جائیں تو وہ کس شوہر کی بی بی ہوگی ؟ فرمایا : اس کو اختیار دیا جائے گا (جس کی زوجیت میں چاہے داخل ہوجائے) اور وہ اس شوہر کی زوجیت کو پسند کرے گی جو دنیا میں سب سے اچھے اخلاق والا تھا۔ حضرت امّ سلمہ نے فرمایا : خوش اخلاقی دنیا اور دین کی ساری بھلائیوں پر غالب آگئی۔ ہناد کا بیان ہے کہ حبان بن جبلہ نے فرمایا : اہل جنت کی عورتیں جب جنت میں داخل ہوں گی تو حوروں سے ان کا مرتبہ اپنے اعمال دنیویہ کی وجہ سے افضل ہوگا۔
Top