Tafseer-e-Mazhari - Al-Hashr : 4
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ۚ وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ شَآقُّوا اللّٰهَ : انہوں نے مخالفت کی اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۚ : اور اسکے رسول کی وَمَنْ : اور جو يُّشَآقِّ : مخالفت کرے اللّٰهَ : اللہ کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزا دینے والا
یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو شخص خدا کی مخالفت کرے تو خدا سخت عذاب دینے والا ہے
ذلک بانھم شاقوا اللہ و رسولہ ومن یشاق اللہ فان اللہ شعید العقاب . ‘ یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے ‘ اللہ اس کو سخت سزا دینے والا ہے۔ “ فَاِنَّ اللہ شَدِیْدُ الْعِقَابِ : یعنی اللہ ان کو سخت عذاب دے گا ‘ کیونکہ وہ سخت عذاب والا ہے۔ ابن اسحاق نے یزید بن رومان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بنی نضیر کے میدان میں جا کر اترے تو بنی نضیر اپنے قلعوں کے اندر گھس گئے اور قلعہ بند ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے نخلستانوں کو کاٹنے اور جلا ڈالنے کا حکم دے دیا۔ محمد بن یوسف صالحی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو لیلیٰ مازفی اور عبداللہ بن سلام کو کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالنے کی خدمت پر مامور کیا۔ ابو لیلیٰ عجوہ کو کاٹنے لگے اور عبداللہ بن سلام نے لون کو کاٹنا شروع کیا۔ (عجوہ کھجوروں کی ایک اعلیٰ نوع ہوتی تھی اور لون معمولی قسم تھی) دونوں سے اس تعیین کی وجہ دریافت کی گئی (جب کہ حکم میں کوئی تعیین نہیں تھا نہ استثناء تھا) ابو لیلیٰ نے کہا : عجوہ کو میں اس لیے جلا رہا ہوں کہ یہودیوں کے لیے عجوہ کام نہ آئیں۔ عبداللہ بن سلام نے فرمایا : میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ (ان کافروں کا مال) غنیمت مسلمانوں کو عطا فرمائے گا اور عجوہ کے درخت بہت قیمتی ہوتے ہیں (اور ان پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا ‘ اس لیے میں نے ان کو نہیں کاٹا) جب عجوہ کے درخت کاٹے گئے تو عورتیں اپنے گریبان پھاڑنے ‘ مُنہ پیٹنے اور واویلا کرنے لگیں اور سلام بن مشکم نے حیی سے کہا : عجوہ کے درخت کٹ رہے ہیں ‘ آئندہ تیس برس تک عجوہ کا ایک خوشہ ایک گھوڑے کے عوض کھانے کو نہیں ملے گا۔ حیی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیام بھیجا ‘ آپ تو تباہ کاری کی ممانعت کرتے تھے پھر نخلستان کو کیوں کاٹ رہے ہیں ؟ (یہ تباہ کاری اور فساد نہیں تو اور کیا ہے) کچھ مسلمانوں کو بھی اندیشہ ہوا کہ یہ عمل تو فساد (تباہ کاری) ہے۔ بعض مسلمانوں نے کہا : مت کاٹو ‘ اللہ نے یہ نعمت ہم کو مفت عنایت کی ہے۔ کچھ لوگ کہنے لگے ہم کاٹیں گے اور اس طرح یہودیوں کو جلائیں گے۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top