Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کئے کہ ان میں مکاریاں کرتے رہیں اور جو مکاریاں یہ کرتے ہیں ان کا نقصان انہیں کو ہے اور (اس سے) بےخبر ہیں
وکذلک جعلنا فی کل قریۃ اکابر مجرمیہا لیمکروا فیہا . اور (جس طرح ہم نے مکہ میں بڑے لوگوں کو مجرم بنا دیا) اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں کو ہی جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں شرارتیں کیا کریں۔ جعلنا : کا ترجمہ اگر بنا دیا کیا جائے تو اس کے دو مفعول ہوں گے ایک فی قریۃ : اور دوسرا اکابر اور مجرمیہا : اکابر سے بدل ہوگا۔ یا اکابر مفعول دویم اور مجرمیہا مفعول اول ہوگا یا اکابر مجرمیہا بصورت اضافت ایک مفعول ہوگا اور فی قریۃ : دوسرا مفعول۔ اور اگر جعلنا : کا ترجمہ کیا جائے ہم نے جما دیا ہم نے طاقت عطا کی تو اکابر مجرمیہا : بصورت اضافت اس کا مفعول ہوگا۔ اگر صیغۂ اسم تفضیل مضاف ہو اور مضاف الیہ جمع ہو تو مضاف کو واحد لانا بھی درست ہے اور جمع لانا بھی (آیت میں) اکابر بصیغۂ جمع ہی آیا ہے) بڑے لوگوں کے پیچھے چونکہ چھوٹے لوگ لگ جاتے ہیں اور بڑے لوگ چھوٹے لوگوں کو اپنا تابع بنانے کی طاقت رکھتے ہیں اس لئے اکابر کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔ اللہ کا ضابطہ ہی یہ ہے کہ شروع پیغمبروں کا اتباع چھوٹے لوگ کرتے اور بڑے لوگ سرکشی کرتے ہیں۔ مکر : کا معنی ہے دھوکہ فریب (قاموس) صحاح میں ہے کہ مکر کا معنی ہے تدبیر کے ساتھ کسی کو اس کے مقصد سے پھیر دینا (یا پھیر دینے کی کوشش کرنا) قریش کے مکر کی صورت یہ تھی کہ انہوں نے مکہ کے چہار طرف کے راستوں پر ایک ایک آدمی بٹھا رکھا تھا کہ جو لوگ مسلمان ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آنا چاہیں ان کو راستے ہی سے لوٹا دے۔ خدمت گرامی میں پہنچنے نہ دے اور یہ کہے کہ یہ شخص تو کاہن اور جھوٹا جادوگر ہے۔ وما یمکرون الا بانفسہم . اور وہ صرف اپنے ہی ساتھ شرارت کرتے تھے کیونکہ اس فریب کا نتیجۂ بد انہی پر پڑتا تھا۔ وما یشعرون . اور ان کو ذرا خبر نہ تھی۔ بغوی نے قتادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ابوجہل نے کہا عبدمناف کی اولاد نے شرف میں ہم سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ جب ریس کے دو گھوڑوں کی طرح (مقابلہ پر) دوڑنے لگے تو انہوں نے (اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے) کہا کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کے پاس وحی آتی ہے۔ خدا کی قسم ہم تو اس کو نہیں مانیں گے اور نہ کبھی اس کے تابع بن کر رہیں گے ہاں اگر ہمارے پاس بھی اسی طرح وحی آجائے جس طرح اس کے پاس آتی ہے تو خیر (مان لیں گے) ایک روایت میں آیا ہے کہ ولید بن مغیرہ نے کہا اگر نبوت واقعی کوئی ضروری چیز ہے تو میں تجھ سے نبوت کا زیادہ حق دار ہوں عمر میں بھی زیادہ ہوں اور مال میں بھی۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top