Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : تمہیں پہنچائے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی سختی فَلَا : تو نہیں كَاشِفَ : دور کرنے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : وہ ہپنچائے تمہیں بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے تو (کوئی اس کو روکنے والا نہیں) وہ ہر چیز پر قادر ہے
وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ہو اور اگر تجھ کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں ضُرّبمعنی شدت جیسے مفلسی ‘ بیماری ‘ عذاب فلا کاشف سے یہ مراد ہے کہ اس کو دور کرنے پر کوئی قادر نہ ہوگا (یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی تکلیف کو سوائے اس کے کوئی دوسرا دور نہیں کرسکتا) ورنہ خدا کی کمزوری لازم آئے گی اور کمزوری ‘ الوہیت اور واجب الوجود ہونے کے منافی ہے۔ وان یمسسک بخیر فہو علی کل شی قدیر اور اگر تجھ کو اللہ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ خیر۔ بھلائی خواہ عافیت ہو صحت ہو دولت ہو یا کچھ اور۔ یعنی اللہ کے قابو میں سب کچھ ہے پس خیر کو قائم و باقی رکھنا اور زائل دور کرنا بھی اسی کی قدرت میں ہے کوئی اور خدا کی عطا کی ہوئی خیر کو زائل نہیں کرسکتا) بغوی نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں ایک خچر بطور ہدیہ بھیجا تھا آپ بالوں کی رسی کی لگام دے کر اس پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا پھر مجھے لے کر روانہ ہوگئے کچھ دیر چلنے کے بعد میری طرف کو رخ موڑ کر فرمایا لڑکے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں فرمایا اللہ (کے احکام) کی نگہداشت کر اللہ تیری حفاظت رکھے گا اللہ (کے اوامر ونواہی) کی نگہداشت کر تو اس کو اپنے سامنے پائے گا تو عیش و آرام کے وقت اللہ کو پہچان دکھ اور سختی کے وقت خدا تجھ سے انجان نہ ہوگا کچھ مانگے تو اللہ سے مانگ اگر مدد طلب کرے تو اللہ سے طلب کر جو کچھ ہونے والا ہے قلم اس پر چل چکا ہے۔ فیصلۂ خداوندی کے خلاف اگر ساری مخلوق تجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے تو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور اللہ کی تحریر کے خلاف اگر تجھے ضرر پہنچانا چاہے گی تو ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو یقین کے ساتھ (مصائب پر) صابر رہ کر عمل کر اگر عمل نہ کرسکتا ہو تو صبر کر ناگوار امور پر صبر رکھنے میں بڑی بہتری ہے۔ یہ بھی جان رکھ کہ صبر کے ساتھ مدد ہوتی ہے اور سختی کے ساتھ کشائش اور دشواری کے ساتھ آسانی۔ احمد اور ترمذی نے یہ حدیث نقل کی ہے ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے لیکن ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو یقین کے ساتھ صابر رہ کر عمل کر الخ (یعنی ترمذی کی روایت مختصر ہے)
Top