Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 20
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ۘ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اس کو پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَهُمْ : اپنے بیٹے اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (ہمارے پیغمبرﷺ) کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں جنہوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لاتے
الذین اتینہم الکتب جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے یعنی توریت و انجیل۔ یعرفونہ وہ محمد ﷺ : کو پہچانتے ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں کیونکہ رسول کا جو حلیہ اور اوصاف و اخلاق ان کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں وہ بعینہٖ محمد ﷺ کے ہیں۔ کما یعرفون ابنآء ہم جس طرح (دوسرے بچوں میں سے) اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ الذین خسروا انفسہم فہم لا یومنون جن لوگوں نے (رسول اللہ ﷺ کے صفات مندرجۂ توریت و انجیل چھپانے کی وجہ سے) اپنے کو ضائع کرلیا ہے (یعنی اللہ نے اپنے علم قدیم میں ان کی نامرادی کا اندازہ کرلیا ہے) وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یعنی دلوں سے یقین کرنے کے باوجود محض عناد ظلم اور غرور و انانیت کی وجہ سے محمد ﷺ : کی نبوت کو نہیں مانیں گے۔ مکہ والوں نے کہا تھا کہ تمہاری نبوت کا کون شاہد ہے ہم نے تو یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی پوچھا تھا انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا ذکر ان کی کتابوں میں نہیں ہے اس قول کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے محمد ﷺ : کی رسالت کی تکذیب کی۔ انہوں نے اپنے کو ضائع کردیا کہ بصورت ایمان جو مقامات مراتب ان کے لئے جنت کے اندر مقرر تھے ان کو کھو دیا اور دوزخ کے ٹھکانوں کو پسند کرلیا۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کے دو مقام ہیں ایک جنت میں ایک دوزخ میں۔ پس جو شخص مر کر دوزخ میں چلا جاتا ہے اس کے جنت والے مکان کے وارث اہل جنت ہوجاتے ہیں یہی مطلب ہے آیت : (اولءِکَ ہم الوارثون) کا۔ بغوی نے لکھا ہے قیامت کا دن ہوگا تو اللہ مؤمنوں کو دوزخیوں کے جنت والے مکان اور دوزخیوں کو مومنوں کے دوزخ والے مکان دے دے گا اور یہی نامرادی ہے۔ میں کہتا ہوں رفتار کلام اس طرح ہونی چاہئے تھی کہ جو لوگ ایمان نہیں لائیں گے وہ اپنے کو ضائع کریں گے مگر کلام میں قوت پیدا کرنے کے لئے طرز بیان کو الٹ دیا۔
Top