Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 41
بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
بَلْ : بلکہ اِيَّاهُ : اسی کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو فَيَكْشِفُ : پس کھول دیتا ہے (دور کردیتا ہے) مَا تَدْعُوْنَ : جسے پکارتے ہو اِلَيْهِ : اس کے لیے اِنْ : اگر شَآءَ : وہ چاہے وَتَنْسَوْنَ : اور تم بھول جاتے ہو مَا : جو۔ جس تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
بل ایاہ تدعون بلکہ تم اسی کو پکارو گے۔ تقدیم مفعول حصر کے لئے ہے۔ فیکشف ما تدعون الیہ انشآء سو وہی اگر چاہے گا تو اس مصیبت کو دور کر دے گا جس کے دور کرنے کے لئے تم اس کو پکارو گے۔ یعنی دنیا میں مصیبت دور کر دے گا اگر چاہے گا آخرت کا عذاب نہیں دور کرے گا۔ وتنسون ما تشرکون۔ اور (ایسے وقت میں) ان (دیوتاؤں) کو بھول جاؤ گے جن کو شریک قرار دیتے ہو۔ بھول جانے سے مراد ہے چھوڑ دینا۔ (بات یہ ہے کہ فطری طور پر) انسان کے دماغ میں یہ امر پیوست ہے کہ مصیبت کو دور کرنے پر قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے (اس لئے مشرک بھی اٹل مصیبت کے وقت اللہ ہی کو پکارنے پر مجبور ہیں) ۔
Top