Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 43
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
فَلَوْلَآ : پھر کیوں نہ اِذْ : جب جَآءَهُمْ : آیا ان پر بَاْسُنَا : ہمارا عذاب تَضَرَّعُوْا : وہ گڑگڑائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : دل ان کے وَزَيَّنَ : آراستہ کر دکھایا لَهُمُ : ان کو الشَّيْطٰنُ : شیطان مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہوگئے تھے۔ اور جو وہ کام کرتے تھے شیطان ان کو (ان کی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا
فلولا اذ جآء ہم باسنا تضرعوا سو جب ان کو ہماری طرف سے سزا پہنچی انہوں نے عاجزی (کے ساتھ تو بہ) کیوں نہیں کی۔ مراد یہ کہ انہوں نے سزا دیکھنے کے بعد بھی توبہ نہیں کی۔ کلمۂ نفی کی جگہ لولا کا استعمال اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ تضرع کے ترک کا ان کے پاس کوئی عذر نہ تھا بلکہ تضرع کے دواعی موجود ہونے کے باوجود انہوں نے توبہ نہیں کی۔ ولکن قست قلوبہم لیکن ان کے دل سخت پڑگئے تھے۔ وزین لہم الشیطن ما کانوا یعملون۔ اور شیطان ان کے اعمال کو ان کی نظر میں پسندیدہ بنا کر دکھاتا رہا۔ یعنی مصائب میں مبتلا ہونے سے بھی ان کو تنبیہ نہ ہوئی اور انہوں نے اپنے اعمال کو ہی پسندیدہ نظروں سے دیکھا۔ یہ توبہ سے روکنے والے سبب کا بیان ہے اور اس بات کا اظہار ہے کہ دل کی سختی اور شیطانی اغواء نے ان کو توبہ سے روک دیا تھا شیطان کے اغواء سے وہ اپنے اعمال پر ہی ریجھے رہے۔
Top