Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 71
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : کہہ دیں اَنَدْعُوْا : کیا ہم پکاریں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ مَا : جو لَا يَنْفَعُنَا : نہ ہمیں نفع دے وَلَا يَضُرُّنَا : اور نہ نقصان کرے ہمیں وَنُرَدُّ : اور ہم پھرجائیں عَلٰٓي : پر اَعْقَابِنَا : اپنی ایڑیاں (الٹے پاؤں) بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىنَا : جب ہدایت دی ہمیں اللّٰهُ : اللہ كَالَّذِي : اس کی طرح جو اسْتَهْوَتْهُ : بھلادیا اس کو الشَّيٰطِيْنُ : شیطان فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (جنگل) حَيْرَانَ : حیران لَهٗٓ : اس کے اَصْحٰبٌ : ساتھی يَّدْعُوْنَهٗٓ : بلاتے ہوں اس کو اِلَى : طرف الْهُدَى : ہدایت ائْتِنَا : ہمارے پاس آ قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک هُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ هُوَ : وہ الْهُدٰي : ہدایت وَاُمِرْنَا : اور حکم دیا گیا ہمیں لِنُسْلِمَ : کہ فرمانبردار رہیں لِرَبِّ : پروردگار کے لیے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
کہو۔ کیا ہم خدا کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کرسکے نہ برا۔ اور جب ہم کو خدا نے سیدھا رستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اس کے کچھ رفیق ہوں جو اس کو رستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دو کہ رستہ تو وہی ہے جو خدا نے بتایا ہے۔ اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم خدائے رب العالمین کے فرمانبردار ہوں
قل ادعوا من دون اللہ ما لا ینفعنا ولا یضرنا ونرد علی اعقابنا بعد اذ ہدانا اللہ : آپ کہہ دیجئے کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پوجا کریں جو ہم کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتیں (اگر ہم ان کی پوجا کریں) اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں (اگر ہم ان کی پوجا نہ کریں اور ان کو نہ مانیں) اور اپنی ایڑیوں کے بل (سڑک کی طرف کو) لوٹ جائیں (جس پر ہم پہلے تھے) بعد اس کے کہ اللہ نے ہم کو (وحی کے ذریعہ سے) ہدایت کردی اور شرک سے بچا لیا اور اسلام کی نعمت عطا فرما دی) کالذی استہوتہ الشیطین فی الارض حیران لہ اصحب یدعونہ الی الہدی ائتنا : جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں بیابان میں بےراہ کردیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے کچھ ساتھی ٹھیک راستہ کی طرف اس کو بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آ جا۔ استہوت (واحد مؤنث) باب استفعال۔ مجرد ہوی۔ ہویکا معنی ہے گیا۔ اِسْتَہوَتہُاس کو لے جانا چاہا ہو لے گئے ہوں۔ کالذی میں کاف محل نصب میں ہے خواہ اس کو مفعول مطلق قرار دیا جائے یا نرد کی ضمیر سے حال۔ اول صورت میں ترجمہ ہوگا کیا ہم شرک کی طرف لوٹ جائیں اس طرح جیسے وہ شخص لوٹ جاتا ہے جس کو شیطانوں نے بےراہ کردیا ہو دوسری صورت میں ترجمہ ہوگا کیا ہم شرک کی طرف لوٹ جائیں۔ اس شخص سے مشابہت رکھتے ہوئے جس کو۔ شیاطین سے مراد ہیں سرکش جنات۔ الارض سے مراد بیابان۔ یعنی راستہ سے بہکا کر مقامات ہلاکت کی طرف لے گئے ہوں۔ حیران استہوتہ کی مفعولی ضمیر سے حال ہے یعنی اس حال میں کہ وہ بھٹکتا ہوا متحیر پھر رہا ہو اس کی سمجھ میں نہ آتا ہو کہ کہاں جائے اور کیا کرے۔ الہدیمصدر ہے بمعنی اسم مفعول یعنی سیدھا راستہ۔ ائنا یدعونہ کی تشریح ہے یدعونکے اندر قول کے معنی ہیں یعنی اس کے ساتھی اس سے کہہ رہے ہوں کہ ہمارے پاس آجا۔ اور وہ قبول نہ کرے ان کے پاس نہ آئے۔ جو شخص راہ اسلام سے بھٹک گیا ہو اور مسلمان اس کو اسلام کی طرف بلا رہے ہوں مگر وہ دعوت کی طرف توجہ نہ کرے اللہ نے اس شخص کی تشبیہ اس آدمی سے دی جس کو جنگل میں شیطانوں نے بےراہ کردیا ہو ساتھی اس کو راستہ کی طرف بلا رہے ہوں مگر وہ نہ آتا ہو۔ اندھوا میں استفہام انکاری ہے یعنی ہم اب ایسا نہیں کریں گے اور پورا تشبیہی جملہ نرد کی ضمیر سے حال ہے۔ قل ان ہدی اللہ ہو الہدی آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت یعنی اسلام ہی حقیقت میں ہدایت ہے اس کے سوا ہر طریقہ گمراہی ہے۔ وامرنا لنسلم لرب العلمین : اور ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہوجائیں
Top