Tafseer-e-Mazhari - At-Taghaabun : 15
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ : بیشک مال تمہارے وَاَوْلَادُكُمْ : اور اولاد تمہاری فِتْنَةٌ : آزمائش ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجرعظیم ہے
تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے۔ اور خدا کے ہاں بڑا اجر ہے
انما اموالکم و اولادکم فتنۃ واللہ عندہ اجر عظیم . ” تمہارے مال اور اولاد بس تمہاری ایک آزمائش کی چیز ہے (جو شخص ان میں پھنسنے کے باوجود اللہ کو یاد رکھے گا) اس کے لیے ‘ اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ “ اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ.... یعنی تمہارا مال اور اولاد اللہ کی طرف سے تمہارا امتحان اور جانچ ہے ‘ جو شخص باوجود موانع اور عوائق کے اور بندوں کے حقوق ادا کرے گا ‘ اللہ اس کو برابر کا درجہ عطا فرمائے گا اور اس متقی سے اس کا مرتبہ بہت زیادہ ہوگا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتا ہے لیکن اس کے لیے اداء حقوق سے روکنے والا نہ کوئی رشتہ اور تعلق ہو نہ کوئی اور مانع ہو ‘ اسی بناء پر اہل سنت کا خیال ہے کہ خواص بشر یعنی انبیاء کا درجہ بڑے مرتبہ کے فرشتوں سے بھی اونچا ہے اور عام اولیاء و صلحاء عام ملائکہ سے افضل ہیں کیونکہ ملائکہ کے اندر تو اطاعت سے روکنے والا کوئی جذبہ ہی نہیں ہے ‘ ان کی سرشت ہر مادی قوّت سے خالی ہے اور اولیاء و صلحاء کے اندر موانع اور عوائق موجود ہیں جو اللہ کی اطاعت اور اداء حقوق سے روکتے ہیں ‘ پر وہ ان سفلی جذبات پر غالب آتے ہیں لیکن اگر مال و اولاد کسی کو اللہ کی اطاعت اور بندوں کے حقوق ادا کرنے سے روک دے اور وہ اللہ کی نافرمانی اور ارتکاب ممنوعات کو اختیار کرلے تو یہی انسان اسفل السافلین میں جاگرتا ہے۔ وَ اللہ ُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ : یعنی اجر عظیم اللہ کے پاس ہے۔ تم اللہ سے اجر عظیم کے طلبگار بنو اور مال و اولاد کی محبت سے بڑھ کر اور اس کو چھوڑ کر اجر عظیم کی اللہ سے طلب کرو۔ فائدہ تمام اہل و عیال تو ذکر خدا سے غافل نہیں کرتے ‘ اس لیے عداوت اہل و عیال کے اظہار کے موقع پر اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلاَدِکُمْ فرمایا (یعنی من تبعیضیَّہ ذکر کیا ‘ مطلب یہ ہے کہ بعض اہل و عیال تمہارے دشمن ہیں ‘ لیکن آزمائش و کسوٹی تو تمام اہل و عیال ہیں ‘ اس میں کسی کا استثناء نہیں) اس لیے بغیر مِن کے اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ : فرمایا (یعنی تمام اموال و اولاد خواہ ذکر خدا سے غافل بنائیں یا نہ بنائیں ‘ بہرحال امتحان سب ہی ہیں ‘ دل کا میلان تو ان کی طرف سب ہی کا ہوتا ہے) حضرت بریدہ کی روایت سے ایک حدیث آئی ہے جس کا ذکر ہم نے سورة جمعہ میں کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت حسن اور حضرت حسین کو لڑکھڑاتے قدموں سے آتے دیکھا (اور گر پڑنے کا اندیشہ ہوا) تو منبر سے اتر کر فوراً جا کر دونوں صاحبزادوں کو اٹھا لیا اور فرمایا : اللہ نے سچ ارشاد فرمایا ہے : اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب آیت : اتَّقُوا اللہ حَقَّ تُقَاتِہٖ نازل ہوئی تو لوگوں کے لیے اس حکم پر عمل کرنا سخت دشوار ہوگیا (کیونکہ حق تقویٰ تک پہنچنا تو بہت ہی دشوار ہے) راتوں کو نماز میں قیام اتنا طویل کرتے کہ کونچیں سوجھ جاتیں اور کثرت سجود سے پیشانیاں زخمی ہونے لگیں۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کے لیے حکم سابق میں تخفیف کردی گئی۔
Top