Tafseer-e-Mazhari - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے یونس کی طرح رہو نا کہ انہوں نے (خدا) کو پکارا اور وہ (غم و) غصے میں بھرے ہوئے تھے
فاصبر . اے محمد ﷺ آپ ﷺ انکی ایذارسانی پر صبر کیجئے کیونکہ جو کچھ یہ کہتے ہیں ‘ بےدلیل کہتے ہیں۔ لحکم ربک . یعنی آپ ﷺ تنگ دل نہ ہوں ‘ جلدی نہ کریں۔ اللہ نے جو ڈھیل ان کو دی ہے اور ڈھیل دینے کے بعد ان کی گرفت کرے گا۔ اس فیصلۂ خداوندی پر صبر کریں۔ ولا تکن کصا حب الحوت . تنگ دلی اور عجلت پسندی میں یونس کی طرح نہ ہوجائیں۔ وہب (بن منبہ) نے بیان کیا ہے کہ حضرت یونس بن متی ایک نیک بندے تھے مگر طبیعت میں کچھ تنگی (عجلت پسندی) تھی ‘ جب ان پر نبوت کا بار ڈالا گیا تو ثقل محسوس کیا اور بار اٹھانے سے کسمسائے جیسے اونٹ کے بچہ پر جب بھاری بوجھ لادا جاتا ہے تو وہ پھینک کر بھاگ نکلتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ نے اولوالعزم انبیاء (کی فہرست) سے یونس کو خارج کردیا اور رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ آپ ﷺ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح برداشت کریں اور صاحب حوت (مچھلی والے یعنی یونس بن متی) کی طرح نہ ہوجائیں۔ یونس کا قصہ ابن مسعود ‘ سعید بن جبیر اور وہب کے بیان کے موافق اس طرح ہوا کہ نینوا علاقۂ موصل میں ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ لوگ آباد تھے ‘ ان کی ہدایت کیلئے اللہ نے یونس کو بھیجا۔ جب انہوں نے حکم نہ مانا تو یونس نے ان کو اطلاع دی کہ تین روز میں صبح کے وقت تم پر عذاب آئے گا اہل نینویٰ نے آپس میں کہا کہ یونس ( علیہ السلام) نے اللہ پر دروغ بندی تو نہیں کی ہے۔ اچھا دیکھتے رہو اگر یونس ( علیہ السلام) رات بھر ساتھ رہے تو سمجھ لو کچھ نہ ہوگا اور رات کو نہ رہے (کہیں نکل جائے) تو سمجھ لو سچا ہے ‘ صبح کو عذاب آئے گا۔ چناچہ یونس ( علیہ السلام) آدھی رات کو ہی نینویٰ سے نکل گئے اور صبح کو عذاب کا کچھ ظہور ہونے لگا ‘ سروں سے میل بھر اونچا کالا بادل بلکہ سخت دھواں چھا گیا اور پھر نیچے اتر کر شہر کو ڈھانپ لیا ‘ گھروں کی چھتیں تک کالی پڑگئیں۔ لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو ہلاکت کا یقین ہوگیا۔ یونس کو تلاش کیا تو وہ نہ ملے مگر اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ کا ارادہ پیدا کیا۔ سب مرد ‘ عورتیں ‘ بچے اور چوپائے شہر کے باہر میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ کمبل کا لباس پہن لیا ‘ ماں کو بچہ سے اور چوپائے کو اس کے بچہ سے الگ کردیا۔ خلوص نیت کے ساتھ ایمان لے آئے ‘ توبہ کی۔ بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑائے تو اللہ نے ان پر رحم فرما دیا۔ ان کی دعا قبول کرلی ‘ آیا ہوا عذاب دور کردیا۔ یہ واقعہ دس محرم کا ہے ادھر حضرت یونس ( علیہ السلام) بستی سے نکل کر نزول عذاب اور قوم کی بربادی کے منتظر تھے لیکن جب کچھ نظر نہ آیا اور انکا قول غلط ثابت ہوگیا (عذاب نازل نہ ہونے کی کوئی وجہ بھی ان کے پاس موجود نہ تھی) تو کہنے لگے ‘ اب میں جھوٹا ثابت ہوگیا۔ قوم کے سامنے کیسے جاؤں گا۔ یہ خیال کر کے چل دیئے اور سمندر پر پہنچ گئے۔ وہاں ایک کشتی پر کچھ لوگ سوار ہو رہے تھے۔ حضرت کو دیکھ کر بےکرایہ سوار کرلیا لیکن کشتی سمندر میں پہنچ کر کھڑی ہوگئی ‘ نہ آگے بڑھتی تھی ‘ نہ پیچھے ہٹتی تھی۔ لوگوں نے کہا : آج اس میں کوئی نئی بات پیدا ہوگئی۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) نے فرمایا : مجھے اس کی بات معلوم ہے اس پر ایک گنہگار آدمی سوار ہے۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ فرمایا : میں ہوں۔ مجھے سمندر میں پھینک دو ۔ کہنے لگے : ہم خود آپ پر قربان ہوجائیں گے آپ کو نہیں پھینکیں گے۔ بالآخر باہم تین بار قرعہ ڈالا اور حضرت یونس کا نام نکلا۔ کشتی کے قریب ایک مچھلی منہ کھولے حکم ربی کی منتظر تھی۔ حضرت نے فرمایا : خدا کی قسم تم سب ہلاک ہوجاؤ گے ورنہ مجھے سمندر میں پھینک دو ‘ مجبوراً لوگوں نے پھینک دیا فوراً مچھلی نے لے لیا اور لوگ کشتی لے کر چل دیئے۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے کہ جب کشتی کھڑی ہوگئی تو ملاحوں نے کہا : یہاں کوئی گناہگار آدمی یا بھاگا ہوا غلام کشتی میں ہے۔ کشتی کا یہی طریقہ ہے اور قرعہ ڈالنے کا ہمارا رواج ہے۔ چناچہ تین بار قرعہ ڈالا اور حضرت یونس کا نام نکلا۔ آپ خود پانی میں گرپڑے اور مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور اس مچھلی کو ایک اور بڑی مچھلی نے نگل لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو پیام بھیجا کہ ہم نے یونس کو تیرا رزق نہیں بنایا ہے بلکہ تیرے پیٹ کو اس کی پناہ گاہ اور مسجد بنایا ہے۔ دوسری روایت میں پناہ گاہ کی بجائے قید خانہ کا لفظ آیا ہے۔ یہ بھی منقول ہے کہ قرعہ اندازی سے پہلے یونس ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا میں ہی گناہگار بھاگا ہوا (غلام) ہوں۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جب تک ہم قرعہ نہ ڈالیں آپ کو پانی میں نہیں پھینکیں گے لیکن جب آپ کے نام کا قرعہ آگیا تو آپ خود پانی میں گرپڑے۔ قصہ میں یہ بات بھی منقول ہے کہ سمندر کے کنارے جب آپ پہنچے تو آپ کے ساتھ آپ کی بیوی اور دو لڑکے تھے۔ جہاز آگیا اور آپ نے چڑھنے کا ارادہ کیا تو سوار ہونے کے پہلے بیوی کو آگے بڑھایا لیکن جہاز اور آپ کے درمیان ایک لہر آگئی (اور بیوی کو بہا کرلے گئی اور دوسری لہر نے آکر بڑے بیٹے کو بھی لے لیا اور چھوٹے بیٹے کو (جو کنارہ پر) تنہا تھا۔ بھیڑیا لے گیا ‘ غرض دوسری کشتی میں آپ تنہا سوار ہوئے اور کشتی رک کر کھڑی ہوگئی۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : مچھلی آپ کو نگل کر ساتویں زمین کے گڑھے میں لے گئی۔ اس کے پیٹ کے اندر آپ چالیس رات رہے۔ پھر پتھریوں کی تسبیح پڑھنے کی آواز سنی تو اندھیروں کے اندر ہی پکار اٹھے : لا الہ الاانت سبحٰنک انی کنت من الظالمین آیت ذیل میں اسی نداء کا بیان ہے۔ اذ نادی وھو مکظوم . یعنی گناہ میں پڑجانے اور تھکان ہوجانے کی وجہ سے رنجیدہ اور غضبناک ہونے کی حالت میں اس نے (تسبیح کی) نداء کی۔ اذ اکا تعلق اذکر فعل محذوف سے ہے۔ نہی (لاتکن) کے ساتھ نہیں ہے۔ اللہ کو یونس کا پکارنا تو اچھا فعل تھا۔ اس کی ممانعت نہیں ہوسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کے عذاب میں صاحب حوت کی طرح عجلت پسندی نہ کرو اور یاد کرو جب اس نے توبہ کے ساتھ غمگین ہونے کی حالت میں اللہ کو پکارا تھا کیونکہ صرف عجلت پسندی اور بےصبری کی وجہ سے اس کو غم کھانا پڑا۔
Top