Tafseer-e-Mazhari - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
لولا ان تدار کہ . لَوْلَآ امتناعیہ ہے اور تدارک ماضی کا صیغہ ادراک کا ہم معنی ہے . (نِعْمَۃٌ) اس کا فاعل ہے (اور نعمت اگرچہ مؤنث ہے اور تدارک مذکر ہے مگر) فعل اور فاعل میں ہٗ کی وجہ سے فصل ہوگیا ہے۔ اس لیے اس فعل کو مذکر لایا گیا یا ” تدارک “ فعل مضارع منصوب ہے۔ اصل میں تتدارک تھا۔ تفاعل کی تاء کو حذف کردیا گیا۔ اس وقت حال ماضی کی حکایت ہوگی اور اَنْ کی وجہ سے مضارع بمعنی مصدر ہوجائے گا (اوّل صورت میں ترجمہ ہوگا اگر نہ پہنچ گئی ہوتی ‘ اس کو رب کی طرف سے نعمت اور دوسری صورت میں ترجمہ یوں ہوگا اگر نہ ہوتا نعمت رب کا پہنچنا) ۔ نعمۃ . یعنی رحمت۔ من ربہ . صفت رحمت ہے یعنی اگر اس پر اللہ کی طرف سے رحمت نہ ہوتی اور توفیق توبہ نہ ملتی اور توبہ قبول نہ ہوجاتی ‘ تو۔ لنبذ بالعرا . ضرور پھینک دیا گیا ہوتا چٹیل میدان میں یعنی ایسی زمین میں جہاں نہ درخت ہوتے ‘ نہ عمارتیں۔ وھو مذموم . اور اس حال میں وہ مذموم ہوتا (اُس کی مذمت کی جاتی) یعنی اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو اس کو چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا اور صبر نہ کرنے اور قوم کو چھوڑ کر بغیر اذان خدا چلے جانے پر اسکی مذمت کی جاتی۔ ترک اولیٰ اگرچہ واقعہ میں عصمت شکن گناہ نہیں ہے لیکن انبیاء کی شان بڑی ہوتی ہے۔ انکے مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے ترک اولیٰ کو بھی ان کے لیے گناہ شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن رحمت خداوندی نے اس کو آلیا ‘ اس نے اللہ کو پکارا اور توبہ کی تو اس کو چٹیل میدان میں نکال کر پھینک تو دیا گیا ‘ پر اس وقت وہ قابل ذم تھا ‘ بیمار ضرو تھا مگر تھا مرحوم اور قابل ستائش حالت میں۔ جیسا کہ سورة الصافات میں آیا ہے۔ عوفی وغیرہ کی روایت سے ابن عباس کا قول منقول ہے کہ یونس ( علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ فلسطین میں رہتے تھے۔ کسی بادشاہ نے ان پر حملہ کیا اور بارہ اسباط (قبائل) میں سے ساڑھے نو اسباط کو گرفتار کرلیا۔ صرف ڈھائی سبط (قبائل) رہ گئے۔ اللہ نے شعیا نبی کے پاس وحی بھیجی کہ شاہ حزقیا (بنی اسرائیل کے بادشاہ) سے جا کر کہو کہ (حملہ کرنے والے بادشاہ کے پاس) کسی قوی سنجیدہ آدمی کو بھیج دے ‘ میں ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کر دونگا کہ وہ بنی اسرائیل کو رہا کردیں۔ اس زمانہ میں حزقیا کی حکومت میں پانچ انبیاء تھے۔ بادشاہ نے یونس کو بلا کر جانے کی درخواست کی۔ یونس ( علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم کو اللہ نے میرے بھیجنے کا حکم دیا ہے ؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ نے مجھے نامزد کیا ہے۔ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) نے فرمایا : تو پھر یہاں دوسرے طاقتور انبیاء موجود ہیں ‘ ان کو بھیجو۔ لوگوں نے جب زیادہ اصرار کیا تو آپ ناراض ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بحر روم کے کنارہ پر جا کر جہاز میں سوار ہوگئے ‘ الخ۔
Top