Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 143
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ١ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ١ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَ : آیا مُوْسٰي : موسیٰ لِمِيْقَاتِنَا : ہماری وعدہ گاہ پر وَكَلَّمَهٗ : اور اس نے کلام کیا رَبُّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَرِنِيْٓ : مجھے دکھا اَنْظُرْ : میں دیکھوں اِلَيْكَ : تیری طرف (تجھے) قَالَ : اس نے کہا لَنْ تَرٰىنِيْ : تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا وَلٰكِنِ : اور لیکن (البتہ) انْظُرْ : تو دیکھ اِلَى الْجَبَلِ : پہاڑ کی طرف فَاِنِ : پس اسْتَقَرَّ : وہ ٹھہرا رہا مَكَانَهٗ : اپنی جگہ فَسَوْفَ : تو تبھی تَرٰىنِيْ : تو مجھے دیکھ لے گا فَلَمَّا : پس جب تَجَلّٰى : تجلی کی رَبُّهٗ : اس کا رب لِلْجَبَلِ : پہاڑ کی طرف جَعَلَهٗ : اس کو کردیا دَكًّا : ریزہ ریزہ وَّخَرَّ : اور گرا مُوْسٰي : موسیٰ صَعِقًا : بیہوش فَلَمَّآ : پھر جب اَفَاقَ : ہوش آیا قَالَ : اس نے کہا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے تُبْتُ : میں نے توبہ کی اِلَيْكَ : تیری طرف وَاَنَا : اور میں اَوَّلُ : سب سے پہلا الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں
ولما جآء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترنی ولکن انظر الی الجبل فان استقرمکانہ فسوف ترنی۔ اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو موسیٰ ( علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھے اپنا دیدار کرا دے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ لوں اللہ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو سو اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی دیکھ سکو گے۔ وقال موسٰی یعنی مناجات کے لئے پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا اخلفنی یعنی میرا قائم مقام ہوجا۔ واصلِحْ اور جن امور کی اصلاح کی ضرورت پڑے ان کی درستی کرنا۔ یا مصلح بن جا۔ یا بنی اسرائیل کی اصلاح کرتا رہنا اور ان کو اللہ کی اطاعت کی ترغیب دیتا رہنا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اَصْلِح فرمانے سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ بنی اسرائیل سے نرمی کرنا اور ان سے حسن سلوک رکھنا۔ ولا تتبع یعنی نافرمانوں کی راہ پر نہ چلنا اور جو لوگ معصیت کی راہ پر لے جانا چاہیں ان کی بات نہ ماننا۔ ولما جائ یعنی جب موسیٰ ( علیہ السلام) طور سینا پر آئے۔ لمیقاتنا اس میں لام تخصیص کا ہے یعنی ہمارے مقرر کردہ وقت پر۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) طہارت کر کے پاک کپڑے پہن کر اللہ کے وعدہ کے مطابق تیار ہوگئے وکلمہ ربہ اس واقعہ کی تفصیل میں آیا ہے کہ اللہ نے سات فرسخ تک تاریکی ہی تاریکی کردی اس حصہ سے شیاطین کو باہر نکال دیا۔ زمین کے کیڑوں کو بھی ہٹا دیا اور دونوں فرشتوں کو بھی الگ کردیا اور آسمان تک فضا کو صاف کردیا اس وقت حضرت موسیٰ نے فرشتوں کو خلا میں کھڑا دیکھا اور عرش کھلا ہوا سامنے نظر آیا اس وقت اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا جس کو موسیٰ ( علیہ السلام) نے تو سن لیا مگر موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ جو اس وقت جبرئیل موجود تھے ان کو کچھ سنائی نہیں دیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے قلم چلنے کی آواز بھی سنی۔ بیضاوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ہر طرف سے کلام سن رہے تھے میں کہتا ہوں اس سے مراد یہ ہے کہ کسی جہت سے نہیں سن رہے تھے (یعنی وہ کلام کسی جہت کا محتاج نہیں تھا تمام جہات و اطراف کی قیود سے آزاد تھا) جس طرف رخ کرتے تھے وہی کلام بےجہت سنتے تھے اس طرح موسیٰ ( علیہ السلام) پر کلام رب کا انکشاف ہوگیا اور اس سے آگے دیدار کے مشاہدہ کا اشتیاق پیدا ہوگیا۔ اَرِخِیْیعنی مجھے اپنا دیدار دکھا (اَرِکا مفعول محذوف ہے) انظر الیکحسن نے کہا موسیٰ کا شوق دیدار اتنا جوش میں آیا کہ انہوں نے رویت آخرت پر قیاس کرتے ہوئے اس دنیا میں بھی دیدار ہونے کا گمان کرلیا یعنی جذبۂ شوق سے مجبور ہو کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے انظر الیک کہا تھا) ۔ قال لن ترانی اللہ نے فرمایا تو ہرگز مجھے نہیں دیکھ پائے گا نہ کوئی انسان دنیا میں میری طرف نگاہ کرسکتا ہے جو شخص میری طرف دیکھے گا مرجائے گا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا الٰہی میں تیرا کلام سن کر تیرے دیدار کا مشتاق ہوا اگر میں تیری طرف دیکھ لوں اور مرجاؤں تو بغیر دیدار زندہ رہنے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ سیوطی (رح) نے لکھا ہے کہ لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا) فرمایا لا اولمی (میں نہیں دیکھا جاسکتا) نہیں فرمایا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا دیدار فی نفسہٖ محال نہیں ہے (اگرچہ اس عالم میں اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا) الی الجبلمدین میں یہ سب سے بڑا پہاڑ تھا جس کو زبیر کہا جاتا تھا۔ سدی کا بیان ہے کہ جس وقت اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا تھا اس وقت ابلیس نے زمین کے اندر گھس کر اور پھر موسیٰ ( علیہ السلام) کے دونوں قدموں کے درمیان سے زمین چیر کر اوپر کو سر نکال کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا کہ یہ کلام کرنے والا اللہ نہیں شیطان ہے اس وقت حضرت موسیٰ نے دیدار کی درخواست کی تھی۔ اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا میں اللہ کا دیدار (فی نفسہٖ ) ممکن ہے انبیاء ناممکن چیز کی طلب نہیں کرسکتا ‘ خصوصاً ایسی ناممکن چیز کی طلب جس سے معرفت خداوندی میں جہالت لازم آتی ہو۔ ہاں لن ترانی کا لفظ یہ ضرور بتارہا ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اس دنیا میں دیدار ملا نہیں لیکن کبھی نہیں ملے گا اس کا کوئی ثبوت آیت میں نہیں۔ دوامی عدم وقوع ہی آیت سے ثابت نہیں۔ عدم امکان کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ایک شبہ کیا موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کے معاملہ میں اتنے نادان تھے کہ ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے یا نہیں اور اس نادانی کی وجہ سے وہ دیکھنے کی درخواست کر بیٹھے۔ ازالہ لن ترانی کے نزول سے پہلے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا بعض احکام سے ناواقف ہونالازم آتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تھی اور ان کو معلوم نہ تھا کہ وہ ڈوبنے سے بچایا جائے گا یا نہیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کی تھی اور آپ کو معلوم نہ تھا کہ مشرک کی مغفرت نہیں ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب کی مغفرت کی درخواست کی تھی جس پر آیت (ماکان النبی والذین امنوا ان یستغفر واللمشرکین ولو کانوا اولی قربی) نازل ہوئی۔ بعض منافقوں کی بخشش کی دعا بھی حضور ﷺ نے کی تھی جس پر آیت (استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفر لہم سبعین مرۃ فلن یغفر اللّٰہ لہم) اور آیت (ولا تصل علی احدمنہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ) نازل ہوئی یہ تمام دعائیں اس وقت کی گئیں جب کہ یہ معلوم نہ تھا کہ کافروں کے لئے مغفرت کی دعا ناقابل قبول ہے۔ (معتزلہ کے نزدیک) دیدارِ الٰہی ناممکن ہے (نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں) دلیل یہ ہے کہ لن ترانی فرما دیا اور لَنْ : کا لفظ تابید کے لئی ہے (تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا) ہم کہتے ہیں لَنْ تابید کے لئے نہیں بلکہ دنیا میں رویت کی نفی کی تاکید کے لئے ہے (تو ہرگز مجھے نہیں دیکھے گا۔ ہرگز سے تاکید نفی ہوتی ہے اور کبھی سے نفی روایت کا دوام) دیکھو یہودیوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے (ولن یتمنوہ ابدًا) (یہ ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ) آخرت میں کافروں کو موت کی تمنا ہوگی اللہ نے خود فرما دیا ہے : (ونادوا یا مالک لیقض علینا ربک) (وہ پکاریں گے اے مالک کاش تیرا رب ہم کو تمام ہی کردیتا ‘ ہماری موت کا حکم ہی دے دیتا) اور فرمایا (یالیتہما کانت القاضیۃ) (کاش پہلی موت ہی تمام کردینے والی ہوتی) (ویقول الکافر یٰلیتنی کنت ترابا) (اور کافر کہے گا کاش میں خاک ہوگیا ہوتا) بعض لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) نے دیدارِ الٰہی کی درخواست قوم کی زبان بندی کے لئے کی تھی کیونکہ انہوں نے اَرِنا اللّٰہَ جہرۃ کہا تھا مگر یہ خیاط قطعاً غلط ہے یہ واقعہ ہی دوسرا ہے اس گستاخانہ سوال کی پاداش میں تو ان پر عذاب آگیا تھا اور ان پر بجلی گر پڑی تھی فاخذتہم الصاعقۃ بظلمہم وہ ایسی بات کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے اسی لئے پکڑے گئے۔ جس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے رب سے کلام کیا اور اللہ نے توریت عطا فرمائی اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے دیدار کی درخواست کی ‘ اس وقت تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اور چونکہ موسیٰ ( علیہ السلام) غیر مستحق نہ تھے (اور درخواست گستاخانہ نہ تھی) اس لئے اللہ کی طرف سے اس درخواست پر کوئی عتاب بھی نہیں ہوا ‘ صرف رویت سے انکار کردیا گیا کیونکہ موسیٰ ( علیہ السلام) میں رویت کو برداشت کرنے کی طاقت نہ تھی اور استقرار جبل سے رویت کو مشروط کردیا گیا۔ اگر رویت واقع میں محال ہوتی تو جب قوم نے دیدارِ رب کی خواہش کی تھی موسیٰ ( علیہ السلام) پر لازم تھا کہ ان کو جاہل قرار دیتے اور سرزنش کرتے جس طرح کہ قوم والوں نے جب اجعل لنا الہا کہا تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو توبیخ کی اور جاہل قرار دیا تھا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے تو حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بھی مفسدوں کے راستہ پر چلنے کی ممانعت کردی تھی پھر خود کس طرح مفسدوں کے راستہ پر چل کر ان کی زبان بندی کے لئے خود دیدار کی درخواست کرنے لگتے۔ فان استقر مکانہ فسوف ترانی میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پہاڑ بھی برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تم کو رویت کی برداشت کیسے ہوگی۔ استقرار جبل سے روایت کو مشروط کرنا بتارہا ہے کہ رویت فی نفسہٖ محال نہیں کیونکہ استقرار جبلبجائے خود محال نہیں اور شرط کا امکان مشروط کے امکان کو ثابت کرتا ہے (استقرار جبل ممکن ہے لہٰذا وہ رویت جو استقرار جبل کی شرط سے مشروط ہے وہ بھی ممکن ہے) وہب بن منبہ اور ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ نے دیدار کا سوال کیا تو کہر اور تاریکی چار چار فرسخ تک پہاڑ پر چھا گئیں بجلیاں تڑپنے لگیں بادل گرجنے اور کڑکنے لگے اور اللہ نے آسمانوں کے فرشتوں کو حکم دیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آجائیں حسب الحکم اس نچلے آسمان کے ملائکہ بیلوں کی شکل میں بادل کی طرح گرجدار آواز میں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے سامنے سے گزرے پھر دوسرے آسمان کے ملائکہ بشکل شیر سامنے آئے ان کے منہ سے بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس کی چیخیں نکل رہی تھیں ضعیف بندہ (موسٰی) بن عمران اس منظر کو دیکھ کر اور ان آوازوں کو سن کر خوف زدہ ہوگیا لرز گیا بدن کا رونگٹا رونگٹا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اب مجھے اپنی درخواست پر پشیمانی ہے کاش کوئی چیز مجھے اس مقام سے الگ کردیتی (کہ میں یہ منظر نہ دیکھتا) اس پر ملائکہ کے سرگروہ نے جو سب کا بزرگ تھا کہا موسیٰ ( علیہ السلام) ابھی اپنے سوال پر قائم رہو ابھی تو بہت میں سے تھوڑا تم نے دیکھا ہے۔ پھر تیسرے آسمان کے فرشتے اتر کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آئے ان کی شکلیں بھی شیروں جیسی تھیں گرجیلی آوازوں سے متواتر تسبیح و تقدیس کا شور کر رہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی لشکر کا مخلوط شور ہے۔ آگ کے شعلے کی طرح ان کی رنگ تھا موسیٰ ( علیہ السلام) خوف زدہ ہوگئے اور زندگی کی آس نہ رہی سرگروہ ملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنی جگہ ٹھہرو تمہارے سامنے تو ایسا منظر آئے گا کہ برداشت نہ کرسکو گے پھر چوتھے آسمان کے ملائکہ موسیٰ کے سامنے آئے پچھلے ملائکہ کی شکلوں سے ان کی صورتیں تھیں رنگ تو شعلہ کی طرح تھا اور جسم برف کی طرح سفید تھا ان کی تسبیح تقدیس کی اونچی آوازیں ایسی تھیں کہ سابق فرشتوں کی آوازیں ان جیسی نہ تھیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا جوڑ جوڑ چٹکنے اور دل دھڑکنے لگا اور شدت کے ساتھ گریہ طاری ہوگیا سید الملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنے سوال پر ٹھہرو کم دیکھا ہے زیادہ دیکھنا ہے پھر پانچویں آسمان کے ملائکہ اتر کر موسیٰ کے سامنے آئے جن کے سات رنگ تھے موسیٰ ( علیہ السلام) کو دیکھتے رہنے کی تاب نہ رہی ایسی شکلیں تو انہوں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں نہ ایسی آوازیں سنی تھیں۔ دل بھر آیا غم نے گھیر لیا اور خوب رونے لگے۔ سرگروہ ملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنی جگہ (یعنی اپنے سوال پر) صبر کئے رہو ایسی چیزیں سامنے آئیں گی کہ صبر نہ کرسکو گے۔ پھر حسب الحکم چھٹے آسمان کے فرشتے اتر کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آئے ہر فرشتے کے ہاتھ میں سورج سے زیادہ روشن درخت کھجور کی طرح لمبا آگ کا ایک ڈنڈا تھا سب کا لباس آگ کے شعلوں کی طرح تھا ہر فرشتے کے ایک سر میں چار منہ تھے گزشتہ فرشتوں کی مجموعی آواز کی طرح اونچی آواز سے تسبیح و تقدیس کر رہے تھے انتہائی بلند آواز سے کہہ رہے تھے سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمٰلِئکۃ والرُّوْحِ رَبُّ الْعِزَّۃِ ابدًا لاَیَمُوت موسیٰ ان کی تسبیح کی آواز سن کر خود بھی تسبیح پڑھنے اور رونے لگے اور عرض کرنے لگے اے میرے رب مجھے یاد رکھنا اپنے بندہ کو نظر انداز نہ کرنا معلوم نہیں اس منظر سے میرا چھٹکارا ہوگا یا نہیں اگر میں (یہاں سے) نکلتا ہوں تو جل جاؤں گا اور رکتا ہوں تو مرجاؤں گا۔ فرشتوں کے سرداروں نے کہا ابن عمران تیرا خوف تو حد سے بڑھ گیا اور تیرا دل نکل پڑتا ہے مگر جس چیز کا تو نے سوال کیا ہے اس کے لئے صبر کر اس کے بعد ساتویں آسمان کے ملائکہ کو عرش الٰہی اٹھانے کا حکم ہوا جونہی نور عرش نمودار ہوا پہاڑ کھل گیا اور تمام فرشتوں نے سبحان الملک القدوس رب العزۃ ابدا لایموت کی آوازیں بلند کیں پہاڑ میں لرزہ آیا اور جو درخت بھی وہاں تھا پھٹ گیا اور بندۂ ضعیف موسیٰ ( علیہ السلام) منہ کے بل بےہوش ہو کر گرپڑا پھر اللہ نے اپنی رحمت سے اس کے پاس روح کو بھیجا روح موسیٰ ( علیہ السلام) پر سایہ فگن ہوگیا اور چھا گیا اور جس پتھر پر موسیٰ ( علیہ السلام) کھڑے ہوئے تھے اسی پتھر کو موسیٰ پر الٹ کر قبہ کی طرح بنا دیا تاکہ موسیٰ ( علیہ السلام) جل نہ جائیں کچھ دیر کے بعد روح نے ان کو کھڑا کیا موسیٰ ( علیہ السلام) تسبیح پڑھتے اٹھ کھڑے ہوئے اور مناجات کرنے لگے میرے مالک میں تجھ پر ایمان لایا اور تصدیق کرتا ہوں کہ جو شخص بھی تجھے دیکھے گا زندہ نہ رہے گا جو شخص تیرے فرشتوں کو بھی دیکھے گا اس کا دل (خوف سے) باہر نکلنے لگے گا تیری عظمت بہت بڑی ہے تو سب کا رب اور معبود کل اور شاہنشاہ ہے تیرے مساوی اور مقابل کوئی شے نہیں اے میرے رب میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ حمد تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں تو بڑی بزرگی والا ہے تو بڑی عظمت رکھتا ہے تو رب العلمین ہے۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا وخر موسیٰ صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک ونا اوّل المؤمنین۔ پس جونہی رب نے پہاڑ پر جلوہ ڈالا اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ( علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے پھر جب ہوش آیا تو عرض کیا بیشک تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں معذرت کرتا ہوں اور سب سے پہلے یقین رکھتا ہوں کہ (میں تجھے براہ راست نہیں دیکھ سکتا) تجلّٰیظاہر ہوا نمودار ہوا یعنی اس کا کچھ نور چمکا۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ چھنگلی کے آدھے پورے کے برابر نور خداوندی کا ظہور ہوا حاکم کی صحیح حدیث میں یہی آیا ہے۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کا دوسرے درجہ پر ظہور (یعنی عکس اور پر تو کا ظہور) تجلی کہلاتا ہے جیسے آئینہ کے اندر کسی کی صورت کا ظہور حقیقت میں یہ جلوہ اندازی اور جلوہ بینی رویت ذات نہ تھی کیونکہ ظاہر ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی استعداد و قوت پہاڑ سے زائد تھی اور موسیٰ کو دیدار ذات سے تاکید کے ساتھ روک دیا گیا تو پہاڑ میں نور ذات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کہاں سے آسکتی ہے اللہ نے فرمایا ہے (انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منہا وحملہا الانسان) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا نور خداوندی پہاڑ پر نمودار ہوا تھا ضحاک کا قول ہے اللہ نے اپنے نور سے پردے ہٹا لئے تھے اور بیل کی ناک کے سوراخ برابر (نور کو) ظاہر کردیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب بن احبار نے فرمایا عظمت خداوندی کی جلوہ پاشی صرف سوئی کے ناکہ کی برابر ہوئی تھی کہ پہاڑ شق ہوگیا۔ سدی نے کہا چھنگلی کے برابر تجلی ہوئی تھی اس کی تائید حضرت انس ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھنگلی کے آخری جوڑ پر انگوٹھا رکھتے ہوئے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا بس اتنی تجلی ہوئی تھی کہ پہار آہستہ آہستہ چلا (یعنی لرزا) اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ ابوالشیخ کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے چھنگی سے اشارہ کیا (اور فرمایا) اس کے ہی نور سے پہاڑ کے پرخچے اڑا دیئے۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی کی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے نور کے ستّر ہزار حجابوں سے درہم کی برابر ہٹایا تھا کہ پہاڑ کے پرخچے اڑ گئے۔ جعلہ دکوقا یعنی ریزہ ریزہ دَکٌّاور دقٌّ ہم معنی ہیں۔ قاموس میں ہے دَکٌّ دَقٌّاور ہدم کا معنی ہے ہموار ریت ‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا پہاڑ کو خاک کردیا پہاڑ آہستہ آہستہ چلا یہاں تک کہ سمندر میں جا گرا اور سمندر کے اندر (برابر اب بھی) چلا جا رہا ہے۔ عطیہ نے کہا پہاڑ ریگ رواں ہوگیا۔ کلبی نے کہا دکًّا کا معنی ہے کسرًاپارہ پارہ یعنی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں بٹ گیا۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت کی تفسیروں میں آیا ہے کہ عظمت نور کی وجہ سے وہ پہاڑ چھ پہاڑوں میں منقسم ہوگیا تین مدینہ میں آپڑے احد و رقان رضوی اور تین مکہ میں ثور ‘ ثبیر ‘ حراء۔ سعاف نے تخریج بیضاوی میں لکھا ہے کہ ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو سنایا اور فرمایا اننی انا اللّٰہیہ لکھا واقعہ عرفہ کی شام کو ہوا وہ پہاڑ جس پر تجلی ہوئی موقف (حج) میں تھا تجلی پڑتے ہی اس کے سات ٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا سامنے گرگیا یہ ٹکڑا تو وہی ہے جس کے قریب امام موقف میں کھڑا ہوتا ہے تین ٹکڑے مدینہ میں جا پڑے طیبہ ‘ احد ‘ رضوی اور طور سیناشام میں چلا گیا اس کو طور کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ یہ اڑ کر شام میں جا پہنچا تھا۔ میں کہتا ہوں اس روایت میں انتہائی غرابت ہے اللہ نے موسیٰ سے کلام تو طور سینا علاقہ شام میں کیا تھا وہیں توریت عطا فرمائی تھی مکہ میں نہ کلام کیا نہ کتاب عطا فرمائی۔ صَعِقًاحضرت ابن عباس ؓ اور حسن نے ترجمہ کیا بےہوش اور قتادہ نے کہا مردہ۔ کلبی نے کہا عرفہ کے دن پنجشنبہ کو موسیٰ بےہوش ہوئے تھے اور جمعہ کو قربانی کے دن اللہ نے توریت عطا فرمائی۔ واقدی نے کہا موسیٰ بےہوش ہو کر گرگئے تو آسمانی ملائکہ نے کہا ابن عمران کا اور دیدار کی درخواست کا کیا ہوا۔ فَلَمَّا افاق یعنی جب بےہوشی سے افاقہ پایا۔ قالتو نظارہ کی عظمت کے زیر اثر کہا۔ تبت الیک یعنی بغیر اجازت سوال کرنے کی جرأت سے توبہ کرتا ہوں۔ وانا اوّل المؤمنین یعنی (اس امت میں) میں سب سے پہلا مؤمن ہوں ہر نبی کا ایمان اپنی امت سے پہلے ہوتا ہی ہے۔
Top