Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 143
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ١ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ١ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَمَّا
: اور جب
جَآءَ
: آیا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِمِيْقَاتِنَا
: ہماری وعدہ گاہ پر
وَكَلَّمَهٗ
: اور اس نے کلام کیا
رَبُّهٗ
: اپنا رب
قَالَ
: اس نے کہا
رَبِّ
: اے میرے رب
اَرِنِيْٓ
: مجھے دکھا
اَنْظُرْ
: میں دیکھوں
اِلَيْكَ
: تیری طرف (تجھے)
قَالَ
: اس نے کہا
لَنْ تَرٰىنِيْ
: تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا
وَلٰكِنِ
: اور لیکن (البتہ)
انْظُرْ
: تو دیکھ
اِلَى الْجَبَلِ
: پہاڑ کی طرف
فَاِنِ
: پس
اسْتَقَرَّ
: وہ ٹھہرا رہا
مَكَانَهٗ
: اپنی جگہ
فَسَوْفَ
: تو تبھی
تَرٰىنِيْ
: تو مجھے دیکھ لے گا
فَلَمَّا
: پس جب
تَجَلّٰى
: تجلی کی
رَبُّهٗ
: اس کا رب
لِلْجَبَلِ
: پہاڑ کی طرف
جَعَلَهٗ
: اس کو کردیا
دَكًّا
: ریزہ ریزہ
وَّخَرَّ
: اور گرا
مُوْسٰي
: موسیٰ
صَعِقًا
: بیہوش
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَفَاقَ
: ہوش آیا
قَالَ
: اس نے کہا
سُبْحٰنَكَ
: تو پاک ہے
تُبْتُ
: میں نے توبہ کی
اِلَيْكَ
: تیری طرف
وَاَنَا
: اور میں
اَوَّلُ
: سب سے پہلا
الْمُؤْمِنِيْنَ
: ایمان لانے والے
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔ جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں
ولما جآء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترنی ولکن انظر الی الجبل فان استقرمکانہ فسوف ترنی۔ اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو موسیٰ ( علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھے اپنا دیدار کرا دے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ لوں اللہ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو سو اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی دیکھ سکو گے۔ وقال موسٰی یعنی مناجات کے لئے پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا اخلفنی یعنی میرا قائم مقام ہوجا۔ واصلِحْ اور جن امور کی اصلاح کی ضرورت پڑے ان کی درستی کرنا۔ یا مصلح بن جا۔ یا بنی اسرائیل کی اصلاح کرتا رہنا اور ان کو اللہ کی اطاعت کی ترغیب دیتا رہنا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اَصْلِح فرمانے سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ بنی اسرائیل سے نرمی کرنا اور ان سے حسن سلوک رکھنا۔ ولا تتبع یعنی نافرمانوں کی راہ پر نہ چلنا اور جو لوگ معصیت کی راہ پر لے جانا چاہیں ان کی بات نہ ماننا۔ ولما جائ یعنی جب موسیٰ ( علیہ السلام) طور سینا پر آئے۔ لمیقاتنا اس میں لام تخصیص کا ہے یعنی ہمارے مقرر کردہ وقت پر۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) طہارت کر کے پاک کپڑے پہن کر اللہ کے وعدہ کے مطابق تیار ہوگئے وکلمہ ربہ اس واقعہ کی تفصیل میں آیا ہے کہ اللہ نے سات فرسخ تک تاریکی ہی تاریکی کردی اس حصہ سے شیاطین کو باہر نکال دیا۔ زمین کے کیڑوں کو بھی ہٹا دیا اور دونوں فرشتوں کو بھی الگ کردیا اور آسمان تک فضا کو صاف کردیا اس وقت حضرت موسیٰ نے فرشتوں کو خلا میں کھڑا دیکھا اور عرش کھلا ہوا سامنے نظر آیا اس وقت اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا جس کو موسیٰ ( علیہ السلام) نے تو سن لیا مگر موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ جو اس وقت جبرئیل موجود تھے ان کو کچھ سنائی نہیں دیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے قلم چلنے کی آواز بھی سنی۔ بیضاوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ہر طرف سے کلام سن رہے تھے میں کہتا ہوں اس سے مراد یہ ہے کہ کسی جہت سے نہیں سن رہے تھے (یعنی وہ کلام کسی جہت کا محتاج نہیں تھا تمام جہات و اطراف کی قیود سے آزاد تھا) جس طرف رخ کرتے تھے وہی کلام بےجہت سنتے تھے اس طرح موسیٰ ( علیہ السلام) پر کلام رب کا انکشاف ہوگیا اور اس سے آگے دیدار کے مشاہدہ کا اشتیاق پیدا ہوگیا۔ اَرِخِیْیعنی مجھے اپنا دیدار دکھا (اَرِکا مفعول محذوف ہے) انظر الیکحسن نے کہا موسیٰ کا شوق دیدار اتنا جوش میں آیا کہ انہوں نے رویت آخرت پر قیاس کرتے ہوئے اس دنیا میں بھی دیدار ہونے کا گمان کرلیا یعنی جذبۂ شوق سے مجبور ہو کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے انظر الیک کہا تھا) ۔ قال لن ترانی اللہ نے فرمایا تو ہرگز مجھے نہیں دیکھ پائے گا نہ کوئی انسان دنیا میں میری طرف نگاہ کرسکتا ہے جو شخص میری طرف دیکھے گا مرجائے گا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا الٰہی میں تیرا کلام سن کر تیرے دیدار کا مشتاق ہوا اگر میں تیری طرف دیکھ لوں اور مرجاؤں تو بغیر دیدار زندہ رہنے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ سیوطی (رح) نے لکھا ہے کہ لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا) فرمایا لا اولمی (میں نہیں دیکھا جاسکتا) نہیں فرمایا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا دیدار فی نفسہٖ محال نہیں ہے (اگرچہ اس عالم میں اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا) الی الجبلمدین میں یہ سب سے بڑا پہاڑ تھا جس کو زبیر کہا جاتا تھا۔ سدی کا بیان ہے کہ جس وقت اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام کیا تھا اس وقت ابلیس نے زمین کے اندر گھس کر اور پھر موسیٰ ( علیہ السلام) کے دونوں قدموں کے درمیان سے زمین چیر کر اوپر کو سر نکال کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا کہ یہ کلام کرنے والا اللہ نہیں شیطان ہے اس وقت حضرت موسیٰ نے دیدار کی درخواست کی تھی۔ اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا میں اللہ کا دیدار (فی نفسہٖ ) ممکن ہے انبیاء ناممکن چیز کی طلب نہیں کرسکتا ‘ خصوصاً ایسی ناممکن چیز کی طلب جس سے معرفت خداوندی میں جہالت لازم آتی ہو۔ ہاں لن ترانی کا لفظ یہ ضرور بتارہا ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اس دنیا میں دیدار ملا نہیں لیکن کبھی نہیں ملے گا اس کا کوئی ثبوت آیت میں نہیں۔ دوامی عدم وقوع ہی آیت سے ثابت نہیں۔ عدم امکان کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ایک شبہ کیا موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کے معاملہ میں اتنے نادان تھے کہ ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے یا نہیں اور اس نادانی کی وجہ سے وہ دیکھنے کی درخواست کر بیٹھے۔ ازالہ لن ترانی کے نزول سے پہلے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا بعض احکام سے ناواقف ہونالازم آتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تھی اور ان کو معلوم نہ تھا کہ وہ ڈوبنے سے بچایا جائے گا یا نہیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کی تھی اور آپ کو معلوم نہ تھا کہ مشرک کی مغفرت نہیں ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب کی مغفرت کی درخواست کی تھی جس پر آیت (ماکان النبی والذین امنوا ان یستغفر واللمشرکین ولو کانوا اولی قربی) نازل ہوئی۔ بعض منافقوں کی بخشش کی دعا بھی حضور ﷺ نے کی تھی جس پر آیت (استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفر لہم سبعین مرۃ فلن یغفر اللّٰہ لہم) اور آیت (ولا تصل علی احدمنہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ) نازل ہوئی یہ تمام دعائیں اس وقت کی گئیں جب کہ یہ معلوم نہ تھا کہ کافروں کے لئے مغفرت کی دعا ناقابل قبول ہے۔ (معتزلہ کے نزدیک) دیدارِ الٰہی ناممکن ہے (نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں) دلیل یہ ہے کہ لن ترانی فرما دیا اور لَنْ : کا لفظ تابید کے لئی ہے (تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا) ہم کہتے ہیں لَنْ تابید کے لئے نہیں بلکہ دنیا میں رویت کی نفی کی تاکید کے لئے ہے (تو ہرگز مجھے نہیں دیکھے گا۔ ہرگز سے تاکید نفی ہوتی ہے اور کبھی سے نفی روایت کا دوام) دیکھو یہودیوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے (ولن یتمنوہ ابدًا) (یہ ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ) آخرت میں کافروں کو موت کی تمنا ہوگی اللہ نے خود فرما دیا ہے : (ونادوا یا مالک لیقض علینا ربک) (وہ پکاریں گے اے مالک کاش تیرا رب ہم کو تمام ہی کردیتا ‘ ہماری موت کا حکم ہی دے دیتا) اور فرمایا (یالیتہما کانت القاضیۃ) (کاش پہلی موت ہی تمام کردینے والی ہوتی) (ویقول الکافر یٰلیتنی کنت ترابا) (اور کافر کہے گا کاش میں خاک ہوگیا ہوتا) بعض لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) نے دیدارِ الٰہی کی درخواست قوم کی زبان بندی کے لئے کی تھی کیونکہ انہوں نے اَرِنا اللّٰہَ جہرۃ کہا تھا مگر یہ خیاط قطعاً غلط ہے یہ واقعہ ہی دوسرا ہے اس گستاخانہ سوال کی پاداش میں تو ان پر عذاب آگیا تھا اور ان پر بجلی گر پڑی تھی فاخذتہم الصاعقۃ بظلمہم وہ ایسی بات کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے اسی لئے پکڑے گئے۔ جس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے رب سے کلام کیا اور اللہ نے توریت عطا فرمائی اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے دیدار کی درخواست کی ‘ اس وقت تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اور چونکہ موسیٰ ( علیہ السلام) غیر مستحق نہ تھے (اور درخواست گستاخانہ نہ تھی) اس لئے اللہ کی طرف سے اس درخواست پر کوئی عتاب بھی نہیں ہوا ‘ صرف رویت سے انکار کردیا گیا کیونکہ موسیٰ ( علیہ السلام) میں رویت کو برداشت کرنے کی طاقت نہ تھی اور استقرار جبل سے رویت کو مشروط کردیا گیا۔ اگر رویت واقع میں محال ہوتی تو جب قوم نے دیدارِ رب کی خواہش کی تھی موسیٰ ( علیہ السلام) پر لازم تھا کہ ان کو جاہل قرار دیتے اور سرزنش کرتے جس طرح کہ قوم والوں نے جب اجعل لنا الہا کہا تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو توبیخ کی اور جاہل قرار دیا تھا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے تو حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بھی مفسدوں کے راستہ پر چلنے کی ممانعت کردی تھی پھر خود کس طرح مفسدوں کے راستہ پر چل کر ان کی زبان بندی کے لئے خود دیدار کی درخواست کرنے لگتے۔ فان استقر مکانہ فسوف ترانی میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پہاڑ بھی برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تم کو رویت کی برداشت کیسے ہوگی۔ استقرار جبل سے روایت کو مشروط کرنا بتارہا ہے کہ رویت فی نفسہٖ محال نہیں کیونکہ استقرار جبلبجائے خود محال نہیں اور شرط کا امکان مشروط کے امکان کو ثابت کرتا ہے (استقرار جبل ممکن ہے لہٰذا وہ رویت جو استقرار جبل کی شرط سے مشروط ہے وہ بھی ممکن ہے) وہب بن منبہ اور ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ نے دیدار کا سوال کیا تو کہر اور تاریکی چار چار فرسخ تک پہاڑ پر چھا گئیں بجلیاں تڑپنے لگیں بادل گرجنے اور کڑکنے لگے اور اللہ نے آسمانوں کے فرشتوں کو حکم دیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آجائیں حسب الحکم اس نچلے آسمان کے ملائکہ بیلوں کی شکل میں بادل کی طرح گرجدار آواز میں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے سامنے سے گزرے پھر دوسرے آسمان کے ملائکہ بشکل شیر سامنے آئے ان کے منہ سے بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس کی چیخیں نکل رہی تھیں ضعیف بندہ (موسٰی) بن عمران اس منظر کو دیکھ کر اور ان آوازوں کو سن کر خوف زدہ ہوگیا لرز گیا بدن کا رونگٹا رونگٹا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اب مجھے اپنی درخواست پر پشیمانی ہے کاش کوئی چیز مجھے اس مقام سے الگ کردیتی (کہ میں یہ منظر نہ دیکھتا) اس پر ملائکہ کے سرگروہ نے جو سب کا بزرگ تھا کہا موسیٰ ( علیہ السلام) ابھی اپنے سوال پر قائم رہو ابھی تو بہت میں سے تھوڑا تم نے دیکھا ہے۔ پھر تیسرے آسمان کے فرشتے اتر کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آئے ان کی شکلیں بھی شیروں جیسی تھیں گرجیلی آوازوں سے متواتر تسبیح و تقدیس کا شور کر رہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی لشکر کا مخلوط شور ہے۔ آگ کے شعلے کی طرح ان کی رنگ تھا موسیٰ ( علیہ السلام) خوف زدہ ہوگئے اور زندگی کی آس نہ رہی سرگروہ ملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنی جگہ ٹھہرو تمہارے سامنے تو ایسا منظر آئے گا کہ برداشت نہ کرسکو گے پھر چوتھے آسمان کے ملائکہ موسیٰ کے سامنے آئے پچھلے ملائکہ کی شکلوں سے ان کی صورتیں تھیں رنگ تو شعلہ کی طرح تھا اور جسم برف کی طرح سفید تھا ان کی تسبیح تقدیس کی اونچی آوازیں ایسی تھیں کہ سابق فرشتوں کی آوازیں ان جیسی نہ تھیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا جوڑ جوڑ چٹکنے اور دل دھڑکنے لگا اور شدت کے ساتھ گریہ طاری ہوگیا سید الملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنے سوال پر ٹھہرو کم دیکھا ہے زیادہ دیکھنا ہے پھر پانچویں آسمان کے ملائکہ اتر کر موسیٰ کے سامنے آئے جن کے سات رنگ تھے موسیٰ ( علیہ السلام) کو دیکھتے رہنے کی تاب نہ رہی ایسی شکلیں تو انہوں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں نہ ایسی آوازیں سنی تھیں۔ دل بھر آیا غم نے گھیر لیا اور خوب رونے لگے۔ سرگروہ ملائکہ نے کہا ابن عمران ابھی اپنی جگہ (یعنی اپنے سوال پر) صبر کئے رہو ایسی چیزیں سامنے آئیں گی کہ صبر نہ کرسکو گے۔ پھر حسب الحکم چھٹے آسمان کے فرشتے اتر کر موسیٰ ( علیہ السلام) کے سامنے آئے ہر فرشتے کے ہاتھ میں سورج سے زیادہ روشن درخت کھجور کی طرح لمبا آگ کا ایک ڈنڈا تھا سب کا لباس آگ کے شعلوں کی طرح تھا ہر فرشتے کے ایک سر میں چار منہ تھے گزشتہ فرشتوں کی مجموعی آواز کی طرح اونچی آواز سے تسبیح و تقدیس کر رہے تھے انتہائی بلند آواز سے کہہ رہے تھے سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمٰلِئکۃ والرُّوْحِ رَبُّ الْعِزَّۃِ ابدًا لاَیَمُوت موسیٰ ان کی تسبیح کی آواز سن کر خود بھی تسبیح پڑھنے اور رونے لگے اور عرض کرنے لگے اے میرے رب مجھے یاد رکھنا اپنے بندہ کو نظر انداز نہ کرنا معلوم نہیں اس منظر سے میرا چھٹکارا ہوگا یا نہیں اگر میں (یہاں سے) نکلتا ہوں تو جل جاؤں گا اور رکتا ہوں تو مرجاؤں گا۔ فرشتوں کے سرداروں نے کہا ابن عمران تیرا خوف تو حد سے بڑھ گیا اور تیرا دل نکل پڑتا ہے مگر جس چیز کا تو نے سوال کیا ہے اس کے لئے صبر کر اس کے بعد ساتویں آسمان کے ملائکہ کو عرش الٰہی اٹھانے کا حکم ہوا جونہی نور عرش نمودار ہوا پہاڑ کھل گیا اور تمام فرشتوں نے سبحان الملک القدوس رب العزۃ ابدا لایموت کی آوازیں بلند کیں پہاڑ میں لرزہ آیا اور جو درخت بھی وہاں تھا پھٹ گیا اور بندۂ ضعیف موسیٰ ( علیہ السلام) منہ کے بل بےہوش ہو کر گرپڑا پھر اللہ نے اپنی رحمت سے اس کے پاس روح کو بھیجا روح موسیٰ ( علیہ السلام) پر سایہ فگن ہوگیا اور چھا گیا اور جس پتھر پر موسیٰ ( علیہ السلام) کھڑے ہوئے تھے اسی پتھر کو موسیٰ پر الٹ کر قبہ کی طرح بنا دیا تاکہ موسیٰ ( علیہ السلام) جل نہ جائیں کچھ دیر کے بعد روح نے ان کو کھڑا کیا موسیٰ ( علیہ السلام) تسبیح پڑھتے اٹھ کھڑے ہوئے اور مناجات کرنے لگے میرے مالک میں تجھ پر ایمان لایا اور تصدیق کرتا ہوں کہ جو شخص بھی تجھے دیکھے گا زندہ نہ رہے گا جو شخص تیرے فرشتوں کو بھی دیکھے گا اس کا دل (خوف سے) باہر نکلنے لگے گا تیری عظمت بہت بڑی ہے تو سب کا رب اور معبود کل اور شاہنشاہ ہے تیرے مساوی اور مقابل کوئی شے نہیں اے میرے رب میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ حمد تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں تو بڑی بزرگی والا ہے تو بڑی عظمت رکھتا ہے تو رب العلمین ہے۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا وخر موسیٰ صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک ونا اوّل المؤمنین۔ پس جونہی رب نے پہاڑ پر جلوہ ڈالا اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ( علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے پھر جب ہوش آیا تو عرض کیا بیشک تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں معذرت کرتا ہوں اور سب سے پہلے یقین رکھتا ہوں کہ (میں تجھے براہ راست نہیں دیکھ سکتا) تجلّٰیظاہر ہوا نمودار ہوا یعنی اس کا کچھ نور چمکا۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ چھنگلی کے آدھے پورے کے برابر نور خداوندی کا ظہور ہوا حاکم کی صحیح حدیث میں یہی آیا ہے۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کا دوسرے درجہ پر ظہور (یعنی عکس اور پر تو کا ظہور) تجلی کہلاتا ہے جیسے آئینہ کے اندر کسی کی صورت کا ظہور حقیقت میں یہ جلوہ اندازی اور جلوہ بینی رویت ذات نہ تھی کیونکہ ظاہر ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی استعداد و قوت پہاڑ سے زائد تھی اور موسیٰ کو دیدار ذات سے تاکید کے ساتھ روک دیا گیا تو پہاڑ میں نور ذات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کہاں سے آسکتی ہے اللہ نے فرمایا ہے (انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منہا وحملہا الانسان) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا نور خداوندی پہاڑ پر نمودار ہوا تھا ضحاک کا قول ہے اللہ نے اپنے نور سے پردے ہٹا لئے تھے اور بیل کی ناک کے سوراخ برابر (نور کو) ظاہر کردیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب بن احبار نے فرمایا عظمت خداوندی کی جلوہ پاشی صرف سوئی کے ناکہ کی برابر ہوئی تھی کہ پہاڑ شق ہوگیا۔ سدی نے کہا چھنگلی کے برابر تجلی ہوئی تھی اس کی تائید حضرت انس ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھنگلی کے آخری جوڑ پر انگوٹھا رکھتے ہوئے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا بس اتنی تجلی ہوئی تھی کہ پہار آہستہ آہستہ چلا (یعنی لرزا) اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ ابوالشیخ کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے چھنگی سے اشارہ کیا (اور فرمایا) اس کے ہی نور سے پہاڑ کے پرخچے اڑا دیئے۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی کی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے نور کے ستّر ہزار حجابوں سے درہم کی برابر ہٹایا تھا کہ پہاڑ کے پرخچے اڑ گئے۔ جعلہ دکوقا یعنی ریزہ ریزہ دَکٌّاور دقٌّ ہم معنی ہیں۔ قاموس میں ہے دَکٌّ دَقٌّاور ہدم کا معنی ہے ہموار ریت ‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا پہاڑ کو خاک کردیا پہاڑ آہستہ آہستہ چلا یہاں تک کہ سمندر میں جا گرا اور سمندر کے اندر (برابر اب بھی) چلا جا رہا ہے۔ عطیہ نے کہا پہاڑ ریگ رواں ہوگیا۔ کلبی نے کہا دکًّا کا معنی ہے کسرًاپارہ پارہ یعنی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں بٹ گیا۔ بغوی نے لکھا ہے اس آیت کی تفسیروں میں آیا ہے کہ عظمت نور کی وجہ سے وہ پہاڑ چھ پہاڑوں میں منقسم ہوگیا تین مدینہ میں آپڑے احد و رقان رضوی اور تین مکہ میں ثور ‘ ثبیر ‘ حراء۔ سعاف نے تخریج بیضاوی میں لکھا ہے کہ ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو سنایا اور فرمایا اننی انا اللّٰہیہ لکھا واقعہ عرفہ کی شام کو ہوا وہ پہاڑ جس پر تجلی ہوئی موقف (حج) میں تھا تجلی پڑتے ہی اس کے سات ٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا سامنے گرگیا یہ ٹکڑا تو وہی ہے جس کے قریب امام موقف میں کھڑا ہوتا ہے تین ٹکڑے مدینہ میں جا پڑے طیبہ ‘ احد ‘ رضوی اور طور سیناشام میں چلا گیا اس کو طور کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ یہ اڑ کر شام میں جا پہنچا تھا۔ میں کہتا ہوں اس روایت میں انتہائی غرابت ہے اللہ نے موسیٰ سے کلام تو طور سینا علاقہ شام میں کیا تھا وہیں توریت عطا فرمائی تھی مکہ میں نہ کلام کیا نہ کتاب عطا فرمائی۔ صَعِقًاحضرت ابن عباس ؓ اور حسن نے ترجمہ کیا بےہوش اور قتادہ نے کہا مردہ۔ کلبی نے کہا عرفہ کے دن پنجشنبہ کو موسیٰ بےہوش ہوئے تھے اور جمعہ کو قربانی کے دن اللہ نے توریت عطا فرمائی۔ واقدی نے کہا موسیٰ بےہوش ہو کر گرگئے تو آسمانی ملائکہ نے کہا ابن عمران کا اور دیدار کی درخواست کا کیا ہوا۔ فَلَمَّا افاق یعنی جب بےہوشی سے افاقہ پایا۔ قالتو نظارہ کی عظمت کے زیر اثر کہا۔ تبت الیک یعنی بغیر اجازت سوال کرنے کی جرأت سے توبہ کرتا ہوں۔ وانا اوّل المؤمنین یعنی (اس امت میں) میں سب سے پہلا مؤمن ہوں ہر نبی کا ایمان اپنی امت سے پہلے ہوتا ہی ہے۔
Top