Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖ٘ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِاَخِيْ : اور میرا بھائی وَاَدْخِلْنَا : اور ہمیں داخل کر فِيْ رَحْمَتِكَ : اپنی رحمت میں وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ : سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے
قال رب اغفرلی ولاخی وادخلنا فی رحمتک وانت ارحم الراحمین۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب میری اور میرے بھائی کی خطا معاف فرما دے اور ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما دے تو سب سے بڑا رحیم ہے۔ واخذا براس اخیہ موسٰی ( علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے آپ کو گمان ہوا کہ ہارون کے قصور سے قوم گمراہی میں مبتلا ہوئی بغوی نے براسہ کی تشریح میں لکھا ہے کہ گیسو اور داڑھی پکڑ کر کھینچی۔ حضرت ہارون ( علیہ السلام) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے اور چونکہ غصہ آور نہ تھے اس لئے بنی اسرائیل آپ سے موسیٰ ( علیہ السلام) کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے۔ ابن ام حضرت ہارون ( علیہ السلام) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے لیکن موسیٰ ( علیہ السلام) کے دل میں نرمی پیدا کرنے اور اپنی محبت قلبی کا مظاہرہ کرنے کے لئے ماں جایا کہا۔ ابن عامر حمزہ اور کسائی وغیرہ نے تو ابن ام پڑھا ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ اصل میں یا ابن امی تھا حرف ندا اور یاء متکلم کو حذف کردیا گیا میم کا کسرہ باقی رہ گیا لیکن فتح چونکہ خفیف ہے۔ زیادتی تخفیف کے لئے ابن ام اکثر قاریوں کی قرأت میں آیا ہے یا جیسے خمسۃ عشر میں تا ہمیشہ مفتوح آتی ہے (کیونکہ دونوں لفظ مل کر ایک کلمہ بن گئے اور اعراب ایک کلمہ کے درمیان جاری نہیں ہوتا جیسے بعلبک میں لام پر ہمیشہ فتح آتا ہے) اسی کی مشابہت سے ابن ام کہا گیا۔ ان القومالقوم یہ لوگ یعنی بچھڑے کے پجاریوں نے۔ کادوا قریب تھا انہوں نے ارادہ کر ہی لیا تھا۔ مطلب یہ کہ میں نے ان کو روکنے میں اپنی کوشش کرلی مگر یہ مجھ پر غالب آگئے اور انہوں نے مجھے بےحقیقت سمجھ لیا قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں میں نے روکنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی آپ اس میں میری کوشش کا قصور نہ سمجھیں۔ فلا تشمت بی یعنی مجھ سے ایسا سلوک نہ کیجئے کہ دشمن خوش ہوں۔ دشمن کی مصیبت پر خوش ہونے کو شماتت کہتے ہیں کذا فی القاموس۔ ولا تجعلنی اور اس غصہ اور غضب میں مجھے ان ظالموں کا شریک نہ بنائے ظالموں سے مراد ہیں گوسالہ پرست (کیونکہ گوسالہ پرستی جیسی غیر موزوں نالائق حرکت کا صدور ان سے ہوا تھا) رب اغفرلی یعنی جو حرکت میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کی اس کو معاف فرما دے ولاخی اور اگر میرے بھائی سے بنی اسرائیل کو روکنے میں کوئی قصور ہوا ہو تو اس کو بھی معاف فرما دے۔ کلام کا سیاق بتارہا ہے کہ اصل مقصود اپنے بھائی کے قصور کی معافی کی طلب تھی بھائی کو خوش کرنے اور دشمنوں کی شماتتکو دفع کرنے کے لئے دعائے مغفرت میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی ذات کو بھی شریک کرلیا۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ دوسروں کے لئے استغفار کا طریقہ بھی یہی ہے کہ اپنی ذات کے لئے اوّل استغفار کیا جائے تاکہ اپنے نفس کو پاک سمجھنے کا شبہ بھی باقی نہ رہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ گناہ دعا کو قبول ہونے سے روکتے ہیں اس لئے سب سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کی جائے اس کے بعد کوئی دعا کی جائے یہی وجہ ہے کہ جنازہ کی (نماز کی) دعا میں اللہم اغفرلحینا ومیتنا آتا ہے۔ زندوں کا ذکر مردوں سے پہلے آتا ہے کیونکہ دعا کرنے والا زندہ ہی ہوتا ہے اور اہل قبور کی دعا میں بھی یغفر اللّٰہ لنا ولکمآتا ہے۔ مخاطب سے پہلے متکلم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اگرچہ معصوم تھے آپ سے کسی گناہ کا صدور ہی نہ ہوتا تھا لیکن امت کی تعلیم کے لئے اللہ نے اپنے نبی کو خطاب کر کے فرمایا : واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنت۔ وادخلنا فی رحمتک یعنی دنیا میں ہم کو معصوم رکھ اور آخرت میں ہم پر رحم فرما اور دونوں جہان میں ہم کو ترقی درجات عنایت کروانت ارحم الراحمین یعنی تو سب سے زیادہ ہم پر مہربان ہے یہاں تک کہ جتنے مہربان ہم اپنے اوپر ہیں اس سے بھی زیادہ تو ہم پر مہربان ہے۔
Top