Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 166
فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب عَتَوْا : سرکشی کرنے لگے عَنْ : سے مَّا نُهُوْا : جس سے منع کیے گئے تھے عَنْهُ : اس سے قُلْنَا : ہم نے حکم دیا لَهُمْ : ان کو كُوْنُوْا : ہوجاؤ قِرَدَةً : بندر خٰسِئِيْنَ : ذلیل و خوار
غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ
فلما عتوا عن ما نہوا عنہ قلنا لہم کونوا قردۃ خسئین : یعنی جب وہ اس کام میں حد سے نکل گئے جس سے ان کو روکا گیا تھا تو ہم نے (براہ قہر) ان کو کہہ دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ (وہ ذلیل بند رہو گے) فَلّما نسوا پھر جب نافرمان فرقہ واعظ و صالح فرقہ کی نصیحت بھول گیا یعنی نصیحت کا تارک رہا سمجھانے پر عمل نہ کیا۔ الذین ینہون عن السوء تو نصیحت کرنے والے نیکوکار فرقہ کو ہم نے ہلاکت سے بچا لیا۔ واخذنا الذین اور نافرمان گروہ کو سخت عذاب میں گرفتار کرلیا۔ بئیسبروزن شدید بمعنی شدید بوس باساشدید ہوگیا۔ (باب نصر) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میں سن رہا ہوں کہ اللہ نے ( انجینا الذین ینہون عن السوء واخذنا الذین ظلموا بعذا بئیس) تو فرما دیا (یعنی بری باتوں سے روکنے والوں کے بچانے کی اور ظالموں کے گرفتار (عذاب) ہونے کی تو صراحت فرما دی) مگر معلوم نہیں خاموش رہنے والے (نیکوکار) گروہ کا کیا ہوا۔ عکرمہ نے کہا میں نے عرض کیا۔ حضرت پر میری جان قربان۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہ فرمایا کہ اس خاموش رہنے والے گروہ نے ظالموں کی حرکت سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کردیا اور ان کے عمل کو برا قرار دیا اور نصیحت کرنے والوں سے کہہ دیا لم تعظون قوما اللّٰہ مہلکہم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے۔ ان کے متعلق اللہ نے اگرچہ یہ نہیں فرمایا کہ میں نے ان کو بچا لیا مگر یہ بھی نہیں فرمایا کہ میں نے ان کو ہلاک کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کو میری یہ بات پسند آئی اور مجھے دو چادریں پہنانے کا حکم دے دیا یعنی پورا خلعت بطور انعام عنایت فرمایا اور فرمایا خاموش رہنے والے گروہ نے (یقینا) نجات پائی۔ رواہ الحاکم۔ یمان بن رباب نے کہا دونوں گروہوں نے نجات پائی اس گروہ نے بھی جس نے لم تعظون قومان اللّٰہ مہلکہم کہا تھا اور ان لوگوں نے بھی جنہوں نے معذرۃ الی ربکم کہا تھا اور مچھلیاں پکڑنے والوں کو اللہ نے غارت کردیا۔ یہ قول حسن اور مجاہد کا ہے ابن زید نے کہا صرف روکنے اور بازداشت کرنے والے گروہ نے نجات پائی۔ باقی دونوں گروہ ہلاک ہوگئے۔ نہی عن المنکرکو ترک کرنے کے سلسلہ میں یہ سخت ترین آیت ہے۔ فلما عتوا یعنی گناہگار مجرم گروہ ممنوع کے ترک کی حد سے بڑھ گیا۔ عن مانہوا میں مضاف محذوف ہے یعنی عن ترک ما نہوا خسئیندور (یعنی پھٹکار والے ذلیل) یہ امر (ایجاب عمل کے لئے نہیں ہے کیونکہ عمل کرنا اور بندر بن جانا ان کے اختیار میں نہ تھا بلکہ) تکوین اور تسخیر کے لئے ہے (یعنی تم کو ہونا پڑے گا بندر ذلیل) ظاہر کلام بتارہا ہے کہ اللہ نے پہلے ان کو کوئی سخت سزا دی لیکن اس پر بھی انہوں نے سرکشی جاری رکھی اور باز نہ آئے تو اللہ نے ان کی صورتیں مسخ کردیں یہ بھی جائز ہے کہ آیت فلما عتوا آیت فلما نسوا کی تاکید اور تفصیل ہو (ہم نے ترجمہ اسی شق کے مطابق کیا ہے) بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ واذا قالت امۃ سے مراد یہ ہے کہ نیکوکار فرقہ میں سے بعض نے بعض سے کہا تم کیوں ان کو نصیحت کرتے ہو یعنی بطور افسوس انہوں نے وعظ کے لئے بےسود ہونے کا اظہار کیا اور آپس میں ہی انہوں نے جواب دیا اور کہا معذرۃ الی ربکم۔ یا یوں کہو کہ (وعظ کرتے کرتے) جو لوگ نصیحت کرنے سے رک گئے تھے انہوں نے ان لوگوں سے جو نصیحت کرنے سے نہیں رکے تھے (برابر وعظ کئے جا رہے تھے) کہا لم تعظون قوما اللّٰہ مہلکہم بعض اہل علم کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ بطور استہزاء اور مذاق بناتے ہوئے خطاکار لوگوں نے نصیحت کرنے والے گروہ سے کہا کہ جب تمہارے خیال میں اللہ ہم کو ہلاک کرنے والا ہی ہے تو پھر ایسے لوگوں کو تم نصیحت کیوں کرتے ہو۔ اس کے جواب میں نیک گروہ نے کہا معذرۃ الی ربکم مگر لعلہم یتقون میں غائب کی ضمیر اس مطلب کو غلط قرار دے رہی ہے اگر یہی مطلب تھا تو لعلکم تتقونمخاطب کی ضمیر کے ساتھ کہنا چاہئے تھے (ممکن ہے کہ گناہگار گروہ نے جب اپنے کو بصیغۂ غائب ذکر کیا اور قوما اللّٰہ مہلکہم کہا تو نصیحت کرنے والوں نے بھی اسی رعایت سے مخاطب کو بصیغہ غائب ذکر کردیا۔ مترجم) روایت میں آیا ہے کہ جب واعظ ناامید ہوگئے تو خطاکاروں کے ساتھ رہنا بھی ان کو گوارا نہ ہوا اور انہوں نے بستی کو تقسیم کرلیا مسلمانوں کی آبادی کا دروازہ الگ ہوگیا اور مجرموں کی آبادی کا دروازہ الگ ہوگیا اور دونوں آبادیوں میں دیوار حائل ہوگئی اور حضرت داؤد نے مجرموں کے لئے بددعا کی ایک روزہ صبح کو جب نیکوکار گروہ اٹھا اور بدکاروں میں سے کوئی گھر سے نہیں نکلا تو انہوں نے کہا آج ضرور ان پر کوئی افتاد ہوئی ہے چناچہ گھروں کے اندر جا کر دیکھا تو سب بندر نظر آئے یہ لوگ اپنے قرابتداروں کو نہ پہچان سکے۔ مگر بندروں نے ان کو پہچان لیا اور پاس آکر ان کے کپڑے سونگھنے لگے روتے تھے اور ان کے آس پاس لوٹے پھرتے تھے نیک گروہ والے ان سے کہنے لگے کیا ہم تم کو منع نہیں کرتے تھے بندر جواب میں سر ہلا دیتے تھے تین روز تک اسی حال میں رہے لوگ ان کو دیکھتے تھے اور وہ لوگ تین روزہ کے بعد سب مرگئے۔
Top