Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے محمدﷺ) عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو
خذ العفوا وامر بالعرف واعرض عن الجہلین : سرسری برتاؤ قبول کرلیا کیجئے اور نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجایا کیجئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور مجاہد ؓ : کا بیان ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ لوگوں کی طرف سے سرسری برتاؤ اور سہل ترین اعمال کو قبول کریں مثلاً کوئی عذر کرے تو عذر قبول کرلیں عفو اور سہولت سے کام لیں چھان بین اور احوال کا تجسس نہ کریں ایسی بات کے لوگوں سے طلبگار نہ ہوں جس کو پیش کرنا ان کے لئے دشوار اور ناگوار ہو۔ اس تفسیر پر عفو کا معنی ہوگا سرسری برتاؤ۔ کوشش اور جہد کی ضد۔ بعض علماء کے نزدیک عفو سے مراد ہے مجرموں اور گناہگاروں کو معاف کردینا۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ عیینہ بن حصین بن حذیفہ اپنے بھتیجے حر بن تعییس کے پاس آکر ٹھہرا ‘ جو حضرت عمر ؓ کے مقربین میں سے تھے ‘ حضرت عمر ؓ کے اہل مجلس اور مشیر قراء ہوتے تھے۔ جوان ہوں یا بوڑھے عیینہ نے حر سے کہا بھتیجے کسی تدبیر سے تم ان سے (یعنی حضرت عمر ؓ سے) اجازت لے سکتے ہو کہ وہ مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دے دیں ‘ حر نے وعدہ کرلیا اور حضرت عمر ؓ سے عیینہ کے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی عیینہ حاضر ہوا اور کہنے لگا ابن خطاب ؓ خدا کی قسم تم ہم کو کچھ زیادہ مال نہیں دیتے نہ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہو۔ (گویا تقسیم مال میں جابر اور فصل مقدمات میں ظالم ہو) حضرت عمر ؓ : کو یہ سن کر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا عیینہ پر حملہ کردیں (یا کوئی سخت حکم دے دیں) حسن نے کہا امیر المؤمنین اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا ہے خذ العفو وأمر بالعرف واعرض عن الجاہلین اور یہ شخص جاہل ہے حضرت عمر آیت سنتے ہی حکم آیت کے مطابق فوراً رک جاتے تھے آپ کی یہ عادت ہی تھی جب یہ آیت سنی تو پھر اس آیت کے حکم سے آگے نہیں بڑھے۔ حضرت انس بن مالک ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بندے حساب کے لئے رکے کھڑے ہوں گے اس حدیث میں ہے پھر ایک منادی ندا کر دے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہو وہ کھڑا ہوجائے اور جنت میں داخل ہوجائے لوگ کہیں گے اللہ کے ذمہ کس کا اجر ہوسکتا ہے منادی کہے گا لوگوں کو معاف کردینے والوں کا اجر اللہ کے ذمہ ہے یہ سن کر اتنے اتنے ہزار لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور بلاحساب کے جنت میں چلے جائیں گے۔ رواہ الطبرانی باسناد حسن۔ روایت میں آیا ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا جبرئیل ( علیہ السلام) اس کا مطلب کیا ہے جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا مجھے نہیں معلوم اللہ سے دریافت کر کے بتاؤں گا کچھ دیر کے بعد جبرئیل ( علیہ السلام) لوٹ کر آئے اور کہا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو تم سے (قرابت) کاٹے تم اس سے جوڑو ‘ جو تم کو محروم رکھے تم اس کو دو جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔ رواہ ابن مردویہ عن جابر وابن ابی الدنیا وابن جریر و ابن ابی حاتم عن الشعبی مرسلاً ۔ حضرت ابی بن کعب ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص (جنت کے اندر) اپنے مکان کا بلند ہونا اور درجات کا اونچا ہونا پسند کرتا ہو اس کو چاہئے کہ جو شخص اس کی حق تلفی کرے اس سے درگزر کرے اور جو اس سے قرابت منقطع کرے وہ اس سے قرابت جوڑے رکھے۔ رواہ الحاکم وقال صحیح الاسناد۔ مگر اس حدیث کی سند منقطع ہے۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا برابر دینے والا واصل (قرابت) نہیں۔ قرابت جوڑنے والا وہ ہے کہ اگر اس کی رشتہ داری توڑی جائے تو وہ جوڑے رکھے۔ (رواہ البخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے کچھ قرابت دار ہیں کہ میں ان سے جوڑتا ہوں تو وہ کاٹتے ہیں۔ میں ان سے بھلائی کرتا ہوں وہ مجھ سے برائی کرتے ہیں میں ان کی طرف سے برداشت کرتا ہوں اور وہ میرے خلاف جہالت کرتے ہیں (برداشت سے کام نہیں لیتے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو ایسا ہی ہے جیسا تو کہہ رہا ہے تو تو ان کو بھوبھل (گرم راکھ) پھنکا رہا ہے اور جب تک تو اس سلوک پر قائم رہے گا برابر اللہ کی طرف سے ایک مددگار تیرے ساتھ رہے گا۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابن عباس ؓ : ضحاک اور کلبی نے آیت کا معنی اس طرح بیان کیا ہے وہ مال لے لو جو عفو ہو یعنی جو مال اہل و عیال کی ضرورت سے فاضل ہو وہ لے لو۔ آیت یسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو میں بھی عفو کا یہی معنی ہے (یعنی وہ پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا دیں آپ کہہ دیجئے کہ جو مال اہل و عیال کی ضرورت سے بچا ہوا ہو (وہ سب دے دو ) آئندہ زکوٰۃ فرض کردی گئی تو یہ حکم منسوخ کردیا گیا۔ وامر بالعرف یعنی جو فعل شرعاً اور عقلاً اچھا ہے اس کا حکم دیجئے۔ حضرت ابو سعید ؓ خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص کسی بری بات کو دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان ہی سے روکے اگر ایسا بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے ہی (اس سے نفرت کرے) اور یہ ضعیف ترین ایمان (کا درجہ) ہے۔ رواہ مسلم۔ حضرت حذیفہ (رح) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (یا تو) تم بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روک گے ورنہ اغلب ہے کہ اللہ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیج دے گا اس وقت تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہوگی۔ رواہ الترمذی۔ واعرض عن الجاھلین یعنی اگر کوئی جاہل تمہارے خلاف حماقت کرے تو تم بیوقوفی اور سبک سری سے اس کا مقابلہ نہ کرو اور اس کے برتاؤ کی طرح خود برتاؤ نہ کرو اسی مفہوم کو بیان کیا ہے آیت (واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً ) ۔ حضرت امام جعفر ؓ صادق نے فرمایا اللہ نے اپنے پیغمبر کو برگزیدہ اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور قرآن میں کوئی اور آیت اس آیت سے بڑھ کر مکارم اخلاق کی جامع نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے اخلاق برگزیدہ اور محاسن افعال کی تکمیل کے لئے بھیجا ہے۔ (رواہ البغوی) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : فحش گو نہ تھے نہ فحش پسند۔ نہ بازاروں میں چیخ و پکار کرنے والے تھے نہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے اور درگزر کرتے تھے۔ رواہ الترمذی والبغوی۔
Top