Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ
: اور یاد کرو
رَّبَّكَ
: اپنا رب
فِيْ
: میں
نَفْسِكَ
: اپنا دل
تَضَرُّعًا
: عاجزی سے
وَّخِيْفَةً
: اور ڈرتے ہوئے
وَّدُوْنَ
: اور بغیر
الْجَهْرِ
: بلند
مِنَ
: سے
الْقَوْلِ
: آواز
بِالْغُدُوِّ
: صبح
وَالْاٰصَالِ
: اور شام
وَلَا تَكُنْ
: اور نہ ہو
مِّنَ
: سے
الْغٰفِلِيْنَ
: بیخبر (جمع)
اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا
واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ ودون الجہر من القول بالغدو والاصال ولا تکن من الغفلین اور آپ ہر شخص سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ اپنے رب کی یاد کرو اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسب کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور غفلت کرنے والوں میں شامل نہ ہوجاؤ۔ واذکر ربک فی نفسکحضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ذکر سے مراد نماز کی قرأت ہے مطلب یہ ہے کہ سری نماز میں چپکے چپکے اپنے دل میں قرأت کیا کرو۔ ودون الجہر من القول۔ الجہر سے مراد ہے جہری نماز۔ دون الجہر سے مراد ہے۔ جہر سے کم اور سر سے زیادہ۔ مطلب یہ ہے کہ سری نماز میں جہر سے کم آواز سے قرأت کرو اور جہری میں کھلی آواز سے کرو مگر بالکل چیخ کر نہ پڑھو بلکہ سکون اور پست آواز ہی سے پڑھو کہ پیچھے والا سن لے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے۔ اس صورت میں ودون الجہرکا عطف فی نفسک پر ہوگا۔ میں کہتا ہوں یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ قرآن متوسط آواز سے نہ پڑھو نہ بالکل ہی چپکے چپکے نہ بالکل چلا کر۔ یہی مضمون دوسری آیت میں آیا ہے (وَلاَ تَجْہَزْ بِصَلٰوتِکَ وَلاَ تَخَافِتْ بِہَا وَاتْبِغَ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ) ۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کی حدیث اس مفہوم کی مؤید ہے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ : کا بیان ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ : کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لے آئے اور ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابوبکر ؓ بہت ہی پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں ‘ پھر حضرت عمر ؓ : کی طرف سے گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں۔ جب صبح کو دونوں حضرات خدمت گرامی میں جمع ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا میں تمہاری طرف سے گزرا تھا تم نہایت پست آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : جس سے میں دعا کر رہا تھا اس کو سنا رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ سے فرمایا میں تمہاری طرف سے بھی گزر تھا تم اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اونگھتے کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ابوبکر ؓ : تم اپنی آواز کچھ اٹھاؤ اور عمر تم اپنی آواز کچھ نیچی کرو رواہ ابو داؤد۔ ترمذی نے ایسی ہی حدیث حضرت عبداللہ بن رباح انصاری کی روایت سے بیان کی ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کو چپکے چپکے بھی پڑھو اور آواز سے بھی ‘ مگر آواز زیادہ زور سے نہ ہو۔ یعنی کبھی اس طرح پڑھو اور کبھی اس طرح دونوں طرح پڑھو۔ ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رات کو رسول اللہ ﷺ کی قرأت اس طرح ہوتی تھی کہ آپ ﷺ کبھی آواز کو اٹھاتے تھے۔ کبھی پست کر کے پڑھتے تھے حضرت عبداللہ ؓ بن ابی قیس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ : کی قرأت کی کیفیت دریافت کی کہ آپ چپکے چپکے پڑھتے یا آواز سے۔ ام المؤمنین نے فرمایا ہر طرح قرأت کرتے تھے چپکے چپکے بھی پڑھتے تھے اور آواز سے بھی۔ میں نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہر کام میں گنجائش رکھی ہے۔ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے۔ فصل رات کو نماز میں اور نماز سے باہر قرآن کس طرح پڑھا جائے علماء کے اقوال اس میں مختلف ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک چپکے چپکے پڑھنا مکروہ ہے آواز سے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت ام ؓ ہانی اور حضرت ابن عباس ؓ کی مندرجۂ سابق حدیثیں اسی پر دلالت کرتی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ گھر کے اند رسول اللہ ﷺ اتنی آواز سے پڑھتے تھے کہ حجرہ سے باہر قرأت سنائی دیتی تھی اور حضرت ام ہانی ؓ نے اپنی چھت پر حضور ﷺ : کی قرأت کی آواز سنی تھی۔ جمہور کے نزدیک پڑھنے والے کو اختیار ہے آواز سے پڑھے یا چپکے چپکے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کبھی آواز اٹھا کر پڑھتے تھے کبھی پست آواز سے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ حضرت ام ہانی اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ : کی آواز سے قرأت کرنے کا اظہار (ضرور) ہے مگر یہ روایات اس بات کے منافی نہیں کہ حضور کبھی پست آواز سے قرأت کرتے تھے۔ (یعنی ان روایات میں ہمیشہ اونچی آواز سے پڑھنے کا اظہار نہیں ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ظاہر کر رہی ہے کہ نمازی کو اختیار ہے چپکے چپکے پڑھے یا آواز سے جس طرح چاہے پڑھے مؤخر الذکر صورت افضل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) اسی کے قائل ہیں۔ جو لوگ نمازی کو اخفاء و جہر کا اختیار دیتے ہیں ان میں پھر دو گروہ ہیں ایک گروہ اخفاء کو افضل کہتا ہے کیونکہ حضرت عقبہ ؓ بن عامر کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے آواز سے قرآن پڑھنے والا سب کے سامنے صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور چپکے چپکے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ چھپا کر خیرات کرنی علانیہ خیرات کرنے سے افضل ہے اللہ نے فرمایا : (ان تبتوا الصدقات فنعماہی وان تخفوہا وتؤنوہا الفقراء فہو خیر لکم) سلف کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ اعمش کا بیان ہے میں ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھ رہے تھے اتنے میں ایک شخص داخلہ کا خواستگار ہوا آپ نے فوراً قرآن مجید کو الگ رکھ دیا اور فرمایا یہ شخص دیکھنے نہ پائے کہ میں ہر وقت قرآن پڑھتا ہوں۔ ابوالعالیہ کا بیان ہے میں صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص نے کہا رات میں نے اتنا قرآن پڑھا صحابہ نے فرمایا قرآن سے تیرا نصیب یہی تھا۔ کثیر علماء کے نزدیک آواز سے پڑھنا افضل ہے اس قول کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے اس مضمون کی چند احادیث پہلے نقل کی جا چکی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے صحیحین میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے اللہ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنا خوش آواز نبی کی آواز کو توجہ سے سنتا ہے جو آواز سے قرآن کو اچھی لے سے پڑھ رہا ہو۔ سننے سے اشارہ ہے رضا مندہونے اور قبول کرنے کی طرف۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کا بیان منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تجھے داؤد کے سروں میں سے ایک سر دیا گیا ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت فضالہ ؓ بن عبید کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس قدر گانے والی عورت کے گانے کی آواز توجہ سے اس کا آقا سنتا ہے اس سے زیادہ توجہ سے اللہ اس خوش آواز شخص کی قرأت سنتا ہے جو آواز سے قرآن پڑھتا ہے۔ ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے حضرت براء ؓ بن عازب کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی آوازوں سے قرآن کی سجاوٹ کرو (یعنی خوش آواز سے پڑھو کہ سننے والے کو قرآن مکروہ نہ معلوم دے حسین محسوس ہو) مختلف احادیث میں مطابقت پیدا کرنے اور تضاد کو دور کرنے کے لئے امام غزالی اور کچھ دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ اگر پڑھنے والے کو خود اپنے متعلق ریاکار ہوجانے کا اندیشہ ہو اور وہ ڈرتا ہو کہ آواز سے قرآن پڑھنا میرے اندر عجب و غرور پیدا کر دے گا تو چپکے چپکے پڑھنا افضل ہے اگر ریا کا اندیشہ نہ ہو تو آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے جہر کے ساتھ پڑھنے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے پڑھنے والے کے دل میں بیداری بھی پیدا ہوتی ہے خیالات کی پراگندگی بھی زائل ہوجاتی ہے کان بھی قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں نیند بھاگ جاتی ہے چستی بڑھ جاتی ہے سونے والے اور غافل آدمی بھی اس کے پڑھنے سے بیدار اور ہوشیار ہوجاتے ہیں۔ ان تمام مقاصد کے پیش نظر آواز سے پڑھنا افضل ہے اور ثواب چند گناہو جاتا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں دیکھ کر پڑھنا اولیٰ ہے۔ میں کہتا ہوں کوئی شک نہیں کہ آواز سے قرآن پڑھنے کی احادیث بکثرت آئی ہیں اور صحابہ ؓ وتابعین کے آثار و اقوال بھی اس سلسلہ میں بیشمار ہیں لیکن یہ حکم اسی شخص کے لئے ہے جس کو اپنے اوپر ریا کا شبہ نہ ہو۔ غرور و عجب پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو کسی کو تکلیف بھی نہ ہو کسی کی نماز میں خلل بھی نہ پڑتا ہو اگر اس قسم کا کوئی اندیشہ ہو تو آواز سے پڑھنا درست نہیں۔ اندیشہ نہ ہو تو جہر سے قرأت مستحب ہے اگر ایک جماعت سننے کے لئے جمع ہو تب تو آواز سے پڑھنا اور بھی افضل ہے۔ مگر بہت چیخ کر پڑھنا اور اپنے کو تکلیف و مشقت میں ڈال کر جہر کے ساتھ پڑھنا جائز کسی طرح نہیں اللہ نے فرمایا ہے ( ودون الجہر من القول) امام محمد نے مؤطا میں امام مالک کی روایت سے ابو سہیل کے باپ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نماز میں اتنی آواز سے قرأت کرتے تھے کہ میں ابو جہیم کے گھر کے پاس ان کی قرأت سن لیتا تھا اسی لئے امام محمد (رح) نے فرمایا کہ جہری نماز میں آواز سے قرآن پڑھنا چاہئے لیکن پڑھتے وقت (زور لگا کر) اپنے کو دکھ میں نہ ڈالنا چاہئے۔ ایک شبہ : اللہ کے ذکر اور دعاء میں جہر کرنا بدعت ہے چپکے چپکے ذکر اور دعا کرنا سنت ہے آیت (وادعوا ربکم تضرعاً و خفیفۃً ) کی تفسیر میں یہ مسئلہ آچکا ہے پھر قرأت اور ذکر میں کیا فرق ہے قرأت بھی ذکر ہی ہے۔ جواب : قرآن میں نصیحتیں بھی موجود ہیں۔ عبرت انگیز سبق آموز قصے بھی ہیں اور احکام بھی ہیں۔ اس کی عبارت معجز میٹھی اور دلکش بھی ہے یہ چیزیں ذکر سے زائد ہیں ذکر سے تو دل سے غفلت دور ہوجاتی ہے بجائے خود یہ عبادت ہے لیکن دوسرے کو سنانا اور اس میں بیداری پیدا کرنا مزید عبادت ہے دعا کی غرض صرف قبولیت ہے اور ذکر کا مقصد ازالۂ غفلت اور اتنا انہماک ہے کہ خود ذاکر کو اپنا بھی ہوش نہ رہے وہ اپنے کو بھول جائے اور بصیرت کے اندر خدا ہی خدا رہ جائے قرأت میں یہ بات نہیں ہے۔ فائدہشعبہ کا بیان ہے مجھے ابو عبیدہ ؓ نے حدیث زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْبیان کرنے سے منع کردیا تھا۔ ابو عبیدہ نے کہا ممانعت کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہوگی کہ اس حدیث کو سن کر لوگوں کو ان نو خیز بدعتی لہجوں کا جواز لگ جائے گا جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد ابو عبیدہ نے قرآن کو خوش آوازی سے پڑھنے کے سلسلہ کی بکثرت احادیث نقل کیں اور فرمایا ان تمام احادیث کا مقصد یہ ہے کہ غم انگیز خوف آفریں اور شوق افزا طریق ادا اختیار کیا جائے۔ یہ تفریحی لہو آگیں لہجے اور لَے مراد نہیں ہیں۔ ابو عبیدہ نے اپنے اس قول کے ثبوت میں مرفوع اور غیر مرفوع متعدد احادیث بیان کیں جن میں اسی مفہوم کی تشریح تھی مثلاً طاؤس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا سب سے زیادہ اچھی آواز سے قرآن پڑھنے والا یا سب سے اچھی قرأت کرنے والا کون ہے فرمایا (سب سے اچھا پڑھنے والا) وہ شخص ہے کہ جب تم اس کی قرأت سنو تو سمجھ لو کہ یہ اللہ سے ڈر رہا ہے (یعنی اس پر اس وقت خشیت کی کیفیت طاری ہے) دارمی نے طاؤس کا قول مرسلاً بیان کیا ہے کہ قرآن پڑھنے میں سب سے زیادہ خوش آواز وہ شخص ہے جو (پڑھتے وقت) سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو۔ حضرت حذیفہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرب کی لَے اور آوازوں میں قرآن پڑھو۔ اہل عشق کی لَے اور ان دونوں کتابوں والوں کے ترانوں سے پرہیز رکھو آئندہ میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو گانے کی گٹکری سے اور نوحہ کے طرز سے قرآن پڑھیں گے۔ مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہ اترے گا ‘ ان کے اور ان کی کیفیت کو پسند کرنے والوں کے دل فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان ورزین فی کتابہ۔ مجاہد (رح) نے کہا آیت کا مطلب یہ ہے کہ دلوں کے اندر ذکر کریں یعنی دعا میں عاجزی اور تضرع کریں آوازیں نہ اٹھائیں چیخ پکار نہ مچائیں چپکے چپکے دعا کرنے سے خلوص قلبی میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں اس تفسیر پر ودون الجہر من القول کافی نفسک پر عطف تفسیری ہوگی (جو مطلب فی نفسککا ہوگا یہی مطلب دون الجہرکا) ذکر خفی و جہری کا مسئلہ آیت ادعوا ربکم تضرعاً و خفیفۃً کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ یا یہ مقتدی کو حکم ہے کہ جب امام قرأت سے فارغ ہوجائے تو مقتدی چپکے چپکے پڑھ لے جس طرح امام شافعی (رح) : کا قول ہے مگر بیضاوی کا یہ قول غلط ہے کیونکہ آیت میں رسول اللہ ﷺ : کو خطاب ہے آپ ﷺ امام تھے مقتدی نہ تھے اور اگر مقتدیوں کو خطاب ہوتا تو جمع کا صیغہ استعمال کرلیا جاتا جیسے فستمعوالہ انصتوا لعلکم ترحمون میں ہے۔ پھر یہ بھی ایک بات ہے کہ قرأت جہری ہو یا سری کان لگا کر سننے اور خاموش رہنے کے تو بہرحال منافی ہے اور امام کی فراغت کے بعد مقتدی کا پڑھنا آیت سے مستفاد نہیں ہے لہٰذا آیت فاستعموا اور آیت دون الجہر میں تضاد لازم آئے گا (دونوں پر عمل ایک وقت میں نہیں ہوسکتا) اس کے علاوہ امام قرأت سے فارغ ہو کر رکوع کو چلا جائے گا اتناموقع ہی کہاں ہوسکتا ہے کہ مقتدی بھی قرأت کرلے اور امام کے رکوع کی حالت میں مقتدی کا قرأت کرنا باجماع علماء درست نہیں ہے اور اگر امام مقتدی کی قرأت کے انتظار میں کھڑا رہے گا تو امام نہ رہے گا مقتدی کا تابع ہوجائے گا۔ بالغدوغدو مصدر ہے تڑکے میں داخل ہوجانا۔ غدا یغدوا اس کا فعل آتا ہے یہاں مراد ہے دن کا ابتدائی وقت۔ قاموس میں ہے الغدوۃ بالضم تڑکا یا دن کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کا وقت۔ وَالاصال یعنی دن کا آخری وقت۔ یہ اصل کی جمع ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اصیل کا وقت عصر سے مغرب تک ہوتا ہے ان دونوں وقتوں کو فضیلت حاصل ہے اس لئے خصوصیت سے ان کا ذکر کیا ورنہ مراد ہے دوام ذکر ہر وقت اللہ کا ذکر کرنا۔ آیت ولا تکن من الغفلین دوام ذکر پر ہی دلالت کر رہی ہے۔ وَلا تکن من الغفلین یعنی کسی وقت اللہ سے غافل نہ ہو۔ میں کہتا ہوں آیت واذکر ربک فی نفسک کے بعد بالغدو والاصال ولا تکن من الغفلین فرمانا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ذکر سے مراد عام مفہوم ہے خواہ قرأت قرآن ہو یا کوئی اور ذکر۔ مقصد یہ ہے کہ غفلت دور ہوجائے جس طرح بھی ممکن ہو۔
Top