Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 21
وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ
وَقَاسَمَهُمَآ : اور ان سے قسم کھا گیا اِنِّىْ : میں بیشک لَكُمَا : تمہارے لیے لَمِنَ : البتہ سے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
اور ان سے قسم کھا کر کہا میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں
وقاسمہما انی لکما لمن النصحین اور دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ یقین جانئے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ الا ان تکونا اور تکونا سے پہلے لامحذوف ہے یا لفظ کراہیۃ مقدر ہے یعنی ابلیس نے آدم و حوا سے کہا تمہارے رب نے جو اس درخت کے پاس جانے کی ممانعت کی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہوجاؤ یا ہمیشہ کی زندگی تم کو نہ مل جائے یا یہ مطلب ہے کہ اس کو تمہارا فرشتہ ہوجانا یا دوامی زندگی پانا پسند نہ تھا صرف اس لئے درخت کے پاس جانے کی ممانعت کردی ‘ بعض لوگوں نے اس آیت سے انبیاء پر ملائکہ کی فضیلت کو ثابت کیا ہے مگر یہ غلط ہے اس سے انبیاء پر ملائکہ کی بہمہ وجوہ کلی فضیلت ثابت نہیں ہوتی صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوا کو ان کمالات و فضائل کی رغبت تھی جو فرشتوں کو حاصل تھے۔ کھانے پینے اور دوسرے لوازم مادی سے بےنیازی ملائکہ کی خصوصیت ہے اور فضیلت عمومی کا معیار یہ نہیں بلکہ اللہ کا مقرب ترین ہونا فضیلت تامہ کا معیار ہے (جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا آدم کو حاصل تھا) قَاسَمَہْمَا یعنی ابلیس نے آدم و حواء کے سامنے اللہ کی پُر زور قسم کھائی قَاسَمَ (باب مفاعلت) کا استعمال مبالغہ کے لئے ہے۔ پورا قصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ قتادہ نے کہا شیطان نے اللہ کی قسم کھا کر دونوں کو دھوکہ دے دیا اور اللہ کے نام پر مؤمن کبھی فریب بھی کھا جاتا ہے کہنے لگا میں تم سے پہلے پیدا ہوا ہوں اور تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور تم دونوں میرے کہے پر چلو میں تمہاری صحیح رہنمائی کروں گا۔ ابلیس نے ہی سب سے پہلے اللہ کی جھوٹی قسم کھائی۔ آدم ( علیہ السلام) کا گمان تھا کہ کوئی بھی اللہ کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا اس لئے دھوکہ کھا گئے۔
Top