Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 28
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بیحیائی قَالُوْا : کہیں وَجَدْنَا : ہم نے پایا عَلَيْهَآ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا وَاللّٰهُ : اور اللہ اَمَرَنَا : ہمیں حکم دیا بِهَا : اس کا قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَاْمُرُ : حکم نہیں دیتا بِالْفَحْشَآءِ : بیحیائی کا اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو (لگاتے ہو) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور خدا نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے۔ کہہ دو خدا بےحیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔ بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں
واذا فعلوا فاحشۃ قالوا وجدنا علیہا آباء نا واللہ امرنا بہا اور وہ لوگ جب کوئی بےحیائی کا کام (شرک یا برہنہ طواف وغیرہ) کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی پر پایا ہے اور اللہ نے ہم کو یہی حکم دیا ہے۔ فاحشۃ حد سے زیادہ بری بات۔ اس سے مراد ہے شرک ‘ لیکن حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد کے نزدیک برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرنا مراد ہے۔ بظاہر لفظ فاحشہ کے اندر ہر کبیرہ گناہ داخل ہے۔ یعنی جب وہ حد سے زیادہ کوئی بری حرکت کرتے ہیں اور ان کو منع کیا جاتا ہے تو اس کے جواز کی دو دلیلیں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو یونہی کرتے پایا (لہٰذا یہ عمل صحیح ہے) اور اللہ نے بھی ہم کو اس کا حکم دیا ہے۔ پہلی دلیل کی تردید اس جگہ نہیں کی ‘ کیونکہ اس کی بےہودگی ظاہر ہی تھی پھر دوسری جگہ آیت میں اس کی تردید (بلیغ اسلوب کے ساتھ) آچکی ہے۔ فرمایا اولو کان اباء ہم لا یعلمون شیئا ولا یہتدون دوسری دلیل کی تردید مندرجۂ ذیل آیت میں فرمائی۔ قل ان اللہ لا یامر بالفحشآء اتقولون علی اللہ ما لاتعلمون آپ کہہ دیجئے کہ اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیتا کیا خدا کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کی سند کا تم کو علم نہیں۔ کیونکہ بری بات کا حکم دینا بھی برا ہے اس آیت میں ثبوت ہے اس امر کا کہ اشیاء کی اچھائی برائی اگرچہ خدا کی پیدا کردہ ہے لیکن عقل سے اس کو سمجھا جاتا ہے۔ قبیح سے مراد اس جگہ وہ امر شنیع ہے جس سے طبع سلیم نفرت کرتی ہے اور دانش صحیح جس کو برا سمجھتی ہے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ آیت مذکورہ میں دونوں جملے دو مرتب سوالوں کے جواب ہیں گویا کلام یوں تھا سوال تم نے اس امر قبیح کا ارتکاب کیوں کیا۔ جواب ہم نے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا۔ سوال۔ تمہارے باپ دادا کو کہاں سے حکم ملا۔ جواب ان کو اللہ نے اس کا حکم دیا تھا (اور ان کی وساطت سے اللہ کا وہ حکم ہم تک پہنچا پس اللہ ہی نے ہم کو اس کا حکم دیا بہرحال آیت سے اسلاف کا بےدلیل اندھا دھند اتباع ممنوع قرار پاتا ہے لیکن ہر تقلید آباء کی حرمت ثابت نہیں ہوتی (اگر آباء کا قول از روئے شریعت حق ہو تو اس پر چلنا اور اس کی تقلید کرنا تو ضروری ہے) اتقولُون علی اللّٰہ یعنی کیا تم اللہ پر بغیر یقین آفریں دلیل کے بہتان بندی کرتے ہو۔ یہ استفہام انکاری ہے مگر انکار حکم نہی میں ہے یعنی اللہ پر افترا بندی نہ کرو۔
Top