Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ١٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَا نُكَلِّفُ : ہم بوجھ نہیں ڈالتے نَفْسًا : کسی پر اِلَّا : مگر وُسْعَهَآ : اس کی وسعت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ہم (عملوں کے لیے) کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ایسے ہی لوگ اہل بہشت ہیں (کہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے
والذین امنوا وعملوا الصلحت لا نکلف نفسا الا وسعہا اولئک اصحب الجنۃ ہم فیہا خالدون۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ایسے ہی لوگ جنتی ہیں جنت کے اندر وہ ہمیشہ رہیں گے ہم کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔ الصلٰحت جمع ہے اور جب جمع کے صیغے پر الف لام آجائے تو صیغۂ استغراق بن جاتا ہے اس لئے عملوا الصلحٰت کے کہنے سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جنت کا وعدہ انہی مؤمنوں سے کیا گیا ہے جنہوں نے تمام زندگی نیکیاں کی ہوں کبھی گناہ نہ کیا ہو یا تمام نیکیاں کی ہوں کوئی نیکی نہ چھوڑی ہو اس شبہ کو دور کرنے کے لئے درمیان میں لا نکلف نفسا الا وسعہابطور جملہ معترضہ فرما دیا (ہم نے اس جملہ کا ترجمہ جملۂ کاملہ کے ترجمہ کے بعد اردو زبان کی رعایت سے کیا ہے) اس سے مراد طاقت بغیر تنگی اور دشواری کے برداشت۔
Top