Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا١ۙ وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَهْوًا : کھیل وَّلَعِبًا : اور کود وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فَالْيَوْمَ : پس آج نَنْسٰىهُمْ : ہم انہیں بھلادینگے كَمَا نَسُوْا : جیسے انہوں نے بھلایا لِقَآءَ : ملنا يَوْمِهِمْ : ان کا دن ھٰذَا : یہ۔ اس وَ : اور مَا كَانُوْا : جیسے۔ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے تھے
جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے اور ہماری آیتوں سے منکر ہو رہے تھے۔ اسی طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے
الذین اتخذوا دینہم لہوا ولعبا وغرتہم الحیوۃ الدنیا جنہوں نے اپنے دین کو کھیل کود بنا رکھا تھا اور دنیوی زندگی نے ان کو فریب دے رکھا تھا۔ بیضاوی نے لکھا ہے حرم سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ نے کافروں سے روک دی ہیں (ممانعت فرما دی ہے) جیسے مکلف کو حرام چیز کی ممانعت کردی جاتی ہے۔ صاحب مدارک نے لکھا ہے یہاں تحریم بمعنی منع ہے جیسے وحرمنا علیہ المراضع میں حَرَّمْنَا کا معنی ہے مَنَعْنَا میں کہتا ہوں آیت حرام علی قریۃ اہلکناہا انہم لا یرجعون میں بھی حرام کا معنی منع ہی ہے۔ ابن ابی الدنیا اور رضیا نے زید بن رفیع کا بیان نقل کیا ہے کہ دوزخی دوزخ میں داخل ہو کر مدت تک آنسوؤں سے روئیں گے پھر مدت تک لہو کے آنسو بہائیں گے۔ دوزخ کے کارندے ان سے کہیں گے بدبختو تم دنیا میں نہیں روئے آج تم کس سے فریاد کر رہے ہو ‘ وہ چیخ کر پکاریں گے اے جنت والو ‘ اے گروہ پدراں و مادراں ! اے اولاد ! ہم قبروں سے پیاسے نکلے تھے ‘ میدان حشر میں بھی پوری مدت پیاسے رہے اور آج بھی پیاسے ہیں ‘ اللہ نے پانی اور جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے ‘ ہماری طرف بھی اس میں سے کچھ بہا دو ۔ چالیس (دن یا مہینے یا سال) تک مانگتے رہیں گے مگر کوئی جواب نہیں دے گا آخر ان کو جواب ملے گا تم کو (یونہی یہاں ہمیشہ) رہنا ہے یہ سن کر وہ ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تشریح میں حضرت ابن عباس : ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو پکارے گا اور کہے گا بھائی میری فریاد رسی کر میں جل گیا وہ جواب دے گا ان اللّٰہ حرمہما علی الکافرین۔ فالیوم ننسہم کما نسوا لقآء یومہم ہذا وما کانوا بایتنا یجحدون : پس آج ہم بھی ان کو ایسے ہی فراموش کردیں گے جیسے انہوں نے اس دن کی پیشی کو فراموش کردیا تھا اور جیسے ہماری آیات کا انکار کردیا تھا۔ فراموش کردینے سے مراد ہے دوزخ میں ڈال کر چھوڑ دینا اور قیامت کے دن کی پیشی کو بھولنے سے مراد ہے ایسے اعمال ترک کردینا جو قیامت کے دن فائدہ رساں ہوں۔
Top