Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 84
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے بارش برسائی عَلَيْهِمْ : ان پر مَّطَرًا : ایک بارش فَانْظُرْ : پس دیکھو كَيْفَ : کیسا ہوا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُجْرِمِيْنَ : مجرمین
اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔ سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا
وامطرنا علیہم مطرا فانظر کیف کان عاقبۃ المجرمین : اور ہم نے ان پر ایک نئی طرح کا مینہ برسایا۔ سو دیکھ لو مجرموں کا کیسا انجام ہوا۔ وَمَا کَان جواب یعنی کوئی ایسی بات پیش نہ کرسکے جو صحیح جواب بن سکتی۔ اِلاَّ اَنْ قالوا اس میں الا کا معنی ہے لیکن اخرجوہم یعنی لوط کو اور اس کے مؤمن ساتھیوں کو۔ انہم اناس یتطہرون یعنی یہ فحش کاموں سے پاک بنتے ہیں۔ یہ کلام انہوں نے بطور استہزاء کہا تھا۔ واہلہ اہل سے مراد مؤمن ساتھی۔ بعض نے کہا حضرت لوط ( علیہ السلام) کی دو بیٹیاں مراد ہیں۔ الا امراتہیہ اہلہ سے استثناء ہے حضرت لوط کی یہ بیوی منافق تھی دل میں کفر چھپائے ہوئے تھے۔ من الغابرین یعنی ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے گھروں میں رہ گئے تھے اور عذاب سے ہلاک کردیئے گئے تھے۔ یا ان لوگوں میں سے تھی جو عذاب میں رہ گئے تھے یا ان بوڑھے معمر لوگوں میں سے تھی جو مدت دراز سے زندہ تھے پھر ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی۔ مطرا (مفعول مطلق ہے) یعنی عجیب طرح کی بارش۔ کنکریالے پتھروں کی بارش جن میں سے ہر پتھر ہر مجرم کے لئے نشان زدہ تھا۔ وہب نے کہا گندھک اور آگ کی بارش ‘ ابوعبیدہ کی تحقیق ہے کہ عذاب کے لئے اَمْطَرَ (باب افعال سے) اور رحمت کے لئے مَطَرْ (ثلاثی مجرد سے) بولا جاتا ہے۔ المجرمین مجرموں سے مراد ہیں کافر۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت لوط اپنے چچا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے ساتھ بابل سے ہجرت کر کے شام کی طرف جاتے ہوئے اردن میں اتر گئے اللہ نے ان کو پیغمبر بنا کر سدوم کو بھیجا تاکہ اہل سدوم کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیں اور ان کی ایجاد کردہ بےحیائی سے بازداشت کریں آپ نے تبلیغ کی مگر وہ باز نہ آئے آخر اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کی اور سب ہلاک ہوگئے۔ اسحق بن بشیر اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ : کا یہی بیان نقل کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے وطن میں مقیم تھے ان کو تو زمین کے اندر دھنسا دیا گیا یعنی زمین ان کو لے کر دھنس گئی اور جو کہیں سفر میں تھے ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اہل سدوم کے پھلدار باغات اور (سرسبز) بستیاں ایسی تھیں جو اس سرزمین میں کہیں نہیں تھیں لوگ ان کو آکر دکھ پہنچاتے (اور ان کے باغوں سے پھل لوٹتے اور چراتے تھے) آخر ابلیس آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا اور مشورہ دیا کہ اگر ان لوگوں کے ساتھ تم ایسی حرکت کرو گے تو پھر تمہاری حفاظت ہوجائے گی۔ اہل سدوم نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن جب (چور ڈاکو) اپنی حرکتوں پر جمے رہے تو اہل سدوم نے بھی ان کے لڑکوں بالوں کو پکڑ کر ان کے ساتھ یہ حرکت کی اور اس طرح یہ خباثت ان میں جم گئی۔ حسن نے کہا وہ صرف عورت سے نکاح کرتے تھے۔ کلبی کا قول ہے کہ سب سے پہلے قوم لوط کی حرکت ابلیس نے کی۔ بات یہ ہوئی کہ اہل سدوم کا ملک بڑا سرسبز تھا ‘ دوسری بستیوں والے وہاں جانور چرانے (اور غلہ پھل لینے) آجاتے تھے (سدوم والے ان سے تنگ تھے) ابلیس ایک نوجوان کی شکل میں ان کے سامنے آیا اور دبر کی طرف اشارہ کیا اس طرح لواطت ہونے لگی نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے حکم سے آسمان نے ان پر پتھر برسائے اور زمین نے ان کو اپنے اندر دھنسا لیا۔
Top