Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 98
اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ
اَوَاَمِنَ : کیا بےخوف ہیں اَهْلُ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمْ : ان پر آجائے بَاْسُنَا : ہمارا عذاب ضُحًى : دن چڑھے وَّهُمْ : اور وہ يَلْعَبُوْن : کھیل کود رہے ہوں
اور کیا اہلِ شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ نازل ہو اور وہ کھیل رہے ہوں
اوامن اہل القری ان یاتیہم باسنا ضحی وہم یلعبون۔ اور کیا ان (موجودہ) بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن دوپہری میں آپڑے جب کہ وہ کھیل کود میں ہوں۔ افامن میں اس کا عطف فاخذناہم بغتۃ پر ہے دونوں کے درمیان کی عبارت معترضہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گزشتہ انبیاء کی تکذیب کرنے والی بستیوں کی تباہی اور عذاب میں گرفتاری کے بعد بھی کیا ان کافروں کو ڈر نہیں لگتا جو محمد رسول اللہ ﷺ : کی نبوت کا انکار کرتے ہیں کہ رات کو سوتے میں یا دن کو کھیل کود میں غافل ہونے کے اوقات میں ان پر اللہ کا عذاب ناگہانی آجائے۔ اس جگہ اہل القریٰ سے مراد ہیں مکہ اور اطراف مکہ کے رہنے والے۔ بیاتًا یا تبییت (مصدر تفعیل) کے معنی میں ہے یا وقت بیات مراد ہے یعنی رات یا اسم فاعل کے معنی میں ہے اور باسنا سے حال ہے یا اسم مفعول کے معنی میں ہے اور ہم سے حال ہے (مطلب بہر طور قریب قریب ہے اصل میں لفظ بیات (مصدر لازم) بیتوتت کے معنی میں ہے لیکن جس طرح لفظ سلام (لازم) بمعنی تسلیم (مصدر متعدی) کے آجاتا ہے اسی طرح لفظ بیاتبمعنی تبییت (متعدی) بھی آتا ہے وہم نائمونسونے سے مراد ہے غفلت کی حالت میں ہونا ‘ عذاب کی طرف سے غافل ہونا۔ افامن اور اوامن میں استفہام زجری ہے ضحی سے مراد دن ہے اس کا لغوی معنی ہے دھوپ چڑھنے کا وقت۔ وہم یلعبون یعنی جب کہ وہ غفلت کی حالت میں بےہودہ کاموں میں مشغول ہوں۔
Top