Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 27
اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
اِنَّكَ : بیشک تو اِنْ : اگر تَذَرْهُمْ : تو چھوڑ دے گا ان کو يُضِلُّوْا : وہ بھٹکا دیں گے عِبَادَكَ : تیرے بندوں کو وَلَا يَلِدُوْٓا : اور نہ وہ جنم دیں گے اِلَّا فَاجِرًا : مگر فاجروں کو۔ نافرمانوں کو كَفَّارًا : سخت کافروں کو
اگر تم ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بدکار اور ناشکر گزار ہوگی
انک ان تذرھم . یہ بددعا کی وجہ ہے۔ یضلوا . گمراہ کردیں گے ‘ یعنی گمراہ کردینا چاہیں گے۔ 1 ؂ عبادک . یعنی تیرے مؤمن بندوں کو (کافر تو گمراہ تھے ہی ‘ ان کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا) ۔ ولا یلدوا الا فاجرا کفارا . محمد بن کعب (قرظی) مقاتل اور ربیع کا قول ہے کہ حضرت نوح نے یہ بددعا اس وقت کی جب اللہ نے ہر مؤمن روح کو قوم نوح کے مردوں کی پشت اور عورتوں کے پیٹ سے پیدا کردیا اور چالیس سال یا نوے سال تک تمام مردوں کا مادۂ تولید خشک اور بےثمر ہوگیا تو اللہ نے نوح کو خبر دی کہ آئندہ یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے اور ان کی اولاد بھی مؤمن نہ ہوگی۔ عذاب کے وقت کوئی بچہ نہ تھا کیونکہ اللہ نے فرمایا : و قوم نوح بما کذبوا الرسل اغرقناھم۔ قوم نوح نے جب پیغمبروں کی تکذیب کی تو ہم نے ان کو غرق کردیا اور ظاہر ہے کہ بچہ تکذیب کر نہیں سکتا (اگر بچہ کسی کی تکذیب کرے بھی تو ناقابل عذاب ہے) اسی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طوفان ساری زمین پر نہیں آیا تھا بلکہ صرف قوم نوح کی زمین پر آیا تھا کیونکہ (مختلف ممالک کے رہنے والوں کا تو کوئی قصور نہ تھا اور) نزول عذاب بغیر تکذیب کے ممکن نہیں۔
Top