Tafseer-e-Mazhari - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں
یوفون بالنذر . یہ جملہ مستانفہ ہے (گویا یہ) جواب ہے ایک فرضی سوال کا کہ ابرار کو ایسا ثواب کیوں ملے گا ابرابر کے کیا اوصاف ہیں ‘ اس صورت میں یہ ابرار کی تعریف ہو جائیگی کہ وہ فرائض ادا کرتے ہیں ‘ اللہ سے ڈرتے ہیں ‘ ممنوعات سے پرہیز کرتے ہیں ‘ بندوں پر رحم کرتے ہیں اور مرضی مولیٰ کی طلب میں خلوص کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں ‘ یہ ابرار کے اوصاف ہیں اور یہ مرتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب نفس کو فنا کردیا گیا ہو اور بری خصلتیں دور ہوگئی ہوں۔ رہے اہل قرب تو انکے اوصاف ان سے بھی اونچے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یوفون سے کلام سابق کی علت بیان کی گئی ہو۔ ابرار پر بہشت میں انعامات مذکورہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں وہ نذر پوری کرتے تھے ‘ الخ نذر کا لغوی معنی ہے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا ‘ صحاح۔ اور جب ابرار غیر واجب (مستحب) امور کو اپنے اوپر واجب کرتے اور ان کو ادا کرتے ہیں تو نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج ‘ عمرہ ‘ جہاد اور دو سرے فرائض الٰہیہ تو بدرجۂ اولیٰ ادا کرتے ہی ہیں۔ شاید قتادہ کے قول کا یہی مطلب ہے۔ قتادہ نے آیت کی تشریح میں کہا تھا کہ اللہ نے جو فرائض ان پر مقرر فرمائے ہیں ‘ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ حج ‘ عمرہ وغیرہ ان کو وہ ادا کرتے ہیں۔ فصل : وجوب کا بیان جب نذر کا معنی ہے غیر واجب کو اپنے اوپر واجب بنا لینا ‘ تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نذر کے انعقاد کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں : 1) جس چیز کی نذر مانی جائے وہ طاعت ہو (معصیت نہ ہو) اگر طاعت نہ ہوگی تو اس قابل نہ ہوگی کہ اس کو واجب بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : نذر وہی ہوتی ہے جو خالص مرضی مولیٰ کے لیے ہو۔ یہ حدیث امام احمد (رح) نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے بیان کی ہے۔ 2) پہلے سے اللہ کی طرف سے واجب کردہ نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دو شرطیں اور بھی ہیں : 1) وہ عبادت مقصودہ ہو (اس لیے عبادت غیر مقصودہ جیسے وضوء ‘ طہارت جسم للصلٰوۃ کی نذر صحیح نہیں) ‘ 2) اس قسم کا کوئی دوسرا واجب اللہ کی طرف سے موجود ہو۔ جمہور کے نزدیک یہ دونوں شرطیں ضروری نہیں۔ دیکھو اعتکاف کی نذر کے درست ہونے پر اجماع ہے باوجودیکہ اعتکاف خود عبادت مقصودہ نہیں ہے بلکہ اس کا عبادت ہونا نماز کے انتظار کے لیے ہے ‘ بجائے خود یہ عبادت نہیں (مسجد میں مقیم رہنا ‘ بجائے خود کوئی عبادت نہیں) پھر کسی قسم کا دوسرا اعتکاف اللہ کی طرف سے واجب بھی نہیں (امام صاحب کی قائم کردہ دونوں شرطیں اعتکاف نذر میں مفقود ہیں) ۔ اسی لیے امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ نذر کی وجہ سے اس عبادت کا وجوب ہوجاتا ہے جو پہلے (اللہ کی طرف سے) واجب نہ تھی ‘ جیسے مریض کی عیادت ‘ جنازہ کے ساتھ جانا ‘ سلام علیک ‘ وجوب نذر کی تعمیم پر حضرت عائشہ ؓ کی حدیث دلالت کر رہی ہے ‘ فرمایا : جس نے اللہ کی اطاعت کی منت مانی ‘ اس کو اطاعت کرنی چاہیے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ‘ اس کو نافرمانی نہ کرنی چاہیے۔ (بخاری) طحاوی نے اس روایت میں اتنی بیشی نقل کی ہے کہ (نافرمانی کرنے کی نذر پوری نہ کرے بلکہ) کفارۂ قسم ادا کرے۔ ابن عطاء نے کہا : طحاوی کی روایت میں جو یہ بیشی ہے اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے (معلوم نہیں ‘ حضور ﷺ نے یہ زائد الفاظ فرمائے تھے یا راوی کی طرف سے بیشی ہے) ۔ مسئلہ اگر کسی نے نذر اطاعت کی ‘ مگر نذر کو بعض (غیر ضروری) شرطوں کے ساتھ مشروط کردیا تو نذر کا ایفاء واجب ہوجائے گا اور شرطیں لغو قرار پائیں گی (ان کی تکمیل واجب نہ ہوگی) جیسے کسی نے نذر مانی کہ کسی خاص جگہ نماز پڑھوں گا یا روزہ میں کھڑارہوں گا۔ اس صورت میں ادائے صوم و صلوٰۃ واجب ہوگی اور ہر حال میں یہ نذر پوری ہوجائے گی ‘ اس پر اجماع ہے لیکن امام ابویوسف (رح) اور امام شافعی (رح) وغیرہ کے نزدیک اگر مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہو تو کسی دوسری مسجد میں پڑھنے سے نذر پوری نہ ہوگی اور اگر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) یا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تو مسجد حرام میں پڑھنے سے یہ نذر پوری ہوجائے گی۔ غرض کم فضیلت والی مسجد میں نماز پڑھنے سے اس نماز کی نذر پوری نہ ہوگی ‘ جو زیادہ فضیلت والی مسجد میں لازم کی گئی ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ہر صورت میں ہر جگہ نماز پڑھنے سے نذر پوری ہوجائے گی۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ آپ ﷺ کو فتح مکہ نصیب فرما دے گا تو میں بیت المقدس میں نماز پڑھوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسی جگہ پڑھ لو۔ اس شخص نے دوسری بار یا تیسری بار وہی گزارش کی۔ آخر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم جانو ‘ تمہارا حال (یعنی تم کو اختیار ہے جو چاہو کر ‘ یہاں پڑھو یا وہاں) ‘ واللہ اعلم۔ (ابوداؤد ‘ دارمی) اسی حدیث کی بناء پر امام صاحب (رح) نے شرط مکانی کو لغو قرار دیا ہے۔ امام ابو یوسف (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ تینوں مساجد میں سے کسی ایک مسجد کی شرط لگانے میں ثواب کی کثرت (ملحوظ) ہوتی ہے اور مقصود طاعت ہے لہٰذا یہ شرط لغو نہ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری اس مسجد میں نماز علاوہ مسجد حرام کے دوسری مسجدوں میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم) حضرت انس ؓ کی روایت ہے ‘ حضور ﷺ نے فرمایا : آدمی کی اپنے گھر میں نماز ایک نماز کا اجر رکھتی ہے اور محلہ کی مسجد میں 25 نمازوں کا اور جامع مسجد میں پانچ سو نمازوں کا اور مسجد اقصیٰ میں ہزار نمازوں کا اور میری مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کا۔ (ابن ماجہ) (یہ تفضیلی درجات) فرض نمازوں کے لیے ہیں ‘ نوافل کا یہ حکم نہیں ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : علاوہ فرض کے (باقی دوسری) نماز آدمی کے لیے اپنے گھر میں میری مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد ‘ ترمذی) علاوہ طاعت کے دوسری شرائط کے لغو ہونے پر حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث دلالت کر رہی ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ دفعتہ ایک شخص دھوپ میں کھڑا نظر آیا۔ اس کے متعلق کیفیت دریافت فرمائی۔ ابو اسرائیل نے عرض کیا : اس نے منت مانی ہے کہ نہ بیٹھے گا ‘ نہ سایہ میں جائے گا ‘ نہ بات کرے گا اور اسی طرح روزہ پورا کرے گا۔ فرمایا : اس کو حکم دو ‘ بات کرے ‘ سایہ میں جائے ‘ بیٹھ جائے اور روزہ پورا کرے۔ (ابوداؤد ‘ ابن ماجہ ‘ ابن حبان) بخاری کی روایت میں دھوپ کا ذکر نہیں ہے۔ امام مالک (رح) نے اس حدیث کو مؤطا میں مرسل ذکر کیا ہے۔ اس روایت میں ہے اس کو حکم دو کہ طاعت خداوندی کو پورا کرے اور جو معصیت ہے اس کو ترک کر دے۔ امام مالک (رح) نے بیان کیا ہم کو یہ بات نہیں پہنچی کہ حضور ﷺ نے کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو۔ امام شافعی (رح) نے بھی یہ حدیث بیان کی جس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے کفارہ کا حکم نہیں دیا۔ البتہ بیہقی نے بوساطت محمد بن کریب حضرت ابن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے ‘ اس میں کفارہ کا حکم ہے مگر محمد بن کریب ضعیف الروایۃ ہے۔ مسئلہ اگر واجب نذر ادا نہ کرسکے تو قضاء واجب ہے۔ نذر کی مثل ادا کرے خواہ مثل حقیقی ہو یا حکمی جیسے نماز نذر کے عوض نماز ‘ صوم نذر کے عوض صوم اور شیخ فانی (پیر ضعیف) ہر صوم نذر کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اگر کسی نے پیدل حج کرنے کی منت مانی اور کسی عذر کی وجہ سے سوار ہوگیا تو جمہور کے نزدیک اس کو ایک جانور کی قربانی پیش کرنی چاہیے۔ صحیح روایت سے امام حنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ثابت ہے۔ اصل روایت میں امام صاحب (رح) کا قول یہ آیا تھا کہ پیدل حج کی نذر ماننے والے پر پیدل جانا واجب ہی نہیں ہے۔ اس لیے اگر سوار ہوجائے تو قربانی واجب نہیں کیونکہ حضرت عقبہ بن عامر جہنی کی روایت ہے حضرت عقبہ ؓ نے کہا : میری بہن نے برہنہ سر ‘ ننگے پاؤں ‘ پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی۔ رسول اللہ ﷺ اس کی طرف تشریف لائے اور فرمایا : اس کی کیا کیفیت ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس نے ننگے سر ‘ ننگے پاؤں ‘ پیدل کعبہ کو جانے کی نذر مانی ہے۔ فرمایا : اس کو حکم دو ‘ سوار ہوجائے اور سر ڈھانک لے۔ (بخاری و مسلم) حضرت انس ؓ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی اپنے دو لڑکوں کے درمیان دونوں کے سہارے سے جا رہا ہے ‘ وجہ دریافت فرمائی ‘ جواب ملا اس نے پیادہ جانے کی نذر مانی ہے ‘ فرمایا : اللہ کو اس کو عذاب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے اس کو سوار ہوجانے کا حکم دیا۔ (متفق علیہ) ہم (جمہور کی طرف سے) کہتے ہیں عقبہ بن عامر کی روایت کو ابوداؤد نے جید سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ میری بہن نے کعبہ تک پیادہ جانے کی منت مانی تھی مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کو سوار ہونے اور ایک قربانی کرنے کا حکم دیا۔ سنن ابی داؤد ہی میں زید بن عباس ؓ کی روایت سے یہ الفاظ آئے ہیں کہ عقبہ بن عامر کی بہن نے نذر مانی تھی کہ پیدل حج کو جائے گی اور اس میں اس کی طاقت نہیں تھی تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : یقیناً اللہ کو تیری بہن کے پیدل چلنے کی پرواہ نہیں ‘ وہ سوار ہوجائے اور ایک اونٹ کی قربانی دے۔ طحاوی نے بھی اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر کی روایت اچھی سند کے ساتھ نقل کی ہے۔ ان تصریحات سے ظاہر ہوگیا کہ صحیحین کی روایات میں اختصار ہے ‘ ہماری نقل کردہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ قربانی کیلئے اونٹ ہی مخصوص ہے۔ عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ حضرت علی ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ جس نے کعبہ کو پیدل جانے کی منت مانی ہو تو اس کو پیدل چلنا چاہیے ‘ اگر تھک جائے تو سو ار ہوجائے اور اونٹ کی قربانی دے۔ ابن عمرو ‘ ابن عباس ‘ قتادہ اور حسن بصری (رح) کے بھی ایسے ہی اقوال منقول ہیں۔ مسئلہ اگر کسی نے گناہ کی نذر مانی یا ایسے امر مباح کی منت مانی جو طاعت نہیں ہوسکتا تو اس کو پورا کرنا واجب نہیں اور بالاجماع وہ نذر درست نہ ہوگی۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک کلام لغو ہوجائے گا اور جمہور کے نزدیک نذر نہیں ہوگی لیکن کلام بھی لغو نہ ہوگا بلکہ قسم کے حکم میں آجائے گا۔ جہاں تک ہو سکے صحیح العقل کے کلام کو لغویت سے محفوظ رکھا جائے ‘ نذر کے لفظوں میں چونکہ پختہ تاکید ہوتی ہے۔ اللہ کا نام ذکر کیا جاتا ہے اس لیے کلام لفظاً قسم بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور معنیً بھی وہ قسم ہوسکتا ہے کیونکہ جس چیز کی منت کو واجب بنایا ہے لامحالہ اس کی ضد کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جمہور کے نزدیک اس قسم کو توڑنا اور نذر معصیت کی صورت میں کفارۂ (قسم) دینا واجب ہے ‘ مگر نذر مباح کی صورت میں اختیار ہے نذر کو پورا کرے یا توڑ کر کفارہ ادا کرے۔ جمہور کے قول کو ثابت کرنے والی مختلف احادیث میں ‘ ایک حدیث حضرت عقبہ بن عامر ؓ والی ہے کہ کفارۂ نذر (وہی ہے جو) کفارۂ قسم ہے۔ (مسلم) حضرت عمران بن حصین ؓ کی حدیث مرفوع ہے کہ معصیت خدا کی کوئی نذر (جائز) نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ نسائی ‘ حاکم ‘ بیہقی۔ اس روایت کا مدار محمد بن زبیر حنظلی پر ہے اور یہ راوی قوی نہیں۔ حافظ ابن حجر نے کہا یہ حدیث دوسرے طریقوں سے بھی منقول ہے ‘ جن کی اسناد صحیح ہے مگر ہے معلول۔ امام احمد اور اصحاب السنن اور بیہقی نے بوساطت زہری از ابو سلمہ از ابوہریرہ ؓ بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر یہ سلسلہ منقطع ہے۔ ابو سلمہ ؓ نے ابوہریرہ ؓ سے سماعت نہیں کی۔ اصحاب السنن نے یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی نقل کی ‘ لیکن اس سلسلہ میں سلیمان بن ارقم ہے جو متروک ہے۔ دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ جس نے معصیت خدا کی منت اپنے اوپر لازم کی ‘ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ اس سند میں غالب بن عبداللہ متروک ہے۔ ابو داؤد نے کریب کی وساطت سے جو حضرت ابن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے اس کی اسناد حسن ہے لیکن نووی نے لکھا ہے کہ معصیت خدا کی کوئی نذر (درست) نہیں ‘ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ باتفاق علماء حدیث یہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ نے کہا کہ طحاوی نے اس حدیث کو صحیح مانا ہے اور ابو علی بن سکن نے بھی۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے معین نذر مانی اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس نے گناہ کی منت مانی اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس نے ایسی منت مانی جس کو ادا کرنے کی اس میں طاقت نہیں ‘ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس نے قابل برداشت نذر مانی تو اس کو پورا کرے۔ (ابوداؤد ‘ ابن ماجہ) حضرت ثابت بن ضحاک کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی خاص مقام پر (ایک روایت میں اس مقام کا نام بوانہ آیا ہے) اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے (دریافت) فرمایا۔ کیا جاہلیت کے دور میں وہاں کسی بت کی پوجا ہوتی تھی ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : کیا جاہلیت والوں کا کوئی خوشی کا میلا لگتا تھا ؟ لوگوں نے جواب دیا : نہیں۔ فرمایا : تو اپنی نذر پوری کر۔ (ابوداؤد) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ عمرو بن شعیب نے اپنے باپ اور دادا کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اسی کی طرح ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس کی روایت بھی لکھی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسی چیز کی نذر مانی ہو جو نہ طاعت ہے ‘ نہ معصیت تو اس کو پورا کرنا جائز ہے۔ عمرو بن شعیب ؓ کے باپ نے دادا کے حوالہ سے بیان کیا کہ ایک عورت نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے منت مانی تھی کہ آپ کے سر پر دف بجاؤں گی۔ اس کی مراد یہ تھی کہ آپ کی تشریف آوری پر (آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں گی) حضور ﷺ نے فرمایا : اپنی منت پوری کرلے۔ یہ حدیث ابوداؤد نے نقل کی ہے۔ شاید یہ واقعہ دف بجانے کی حرمت سے پہلے کا تھا۔ نذر معلق بالشرط ‘ بوقت تحقق شرط ‘ نذر قطعی کے حکم میں ہے۔ ظاہر روایت میں امام اعظم (رح) کا یہی قول ہے اور ابو یوسف کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی (رح) کا قول بھی ایک روایت میں یہی آیا ہے۔ امام مالک بھی اسی کے قائل ہیں مگر انہوں نے (ایک صورت میں اس کے خلاف) کہا ہے کہ اگر کسی نے نذر مشروط کی صورت میں کل مال خیرات کرنے کی منت مانی اور شرط واقع ہوگئی تو (کَل مال خیرات کرنا ضروری نہیں ‘ صرف) ایک تہائی مال خیرات کرنا لازم ہے باقی جو صورت بھی ہو ہر حالت میں جو منت مانی ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ امام اعظم (رح) نے قول مذکور سے رجوع کرلیا تھا اور فرمایا تھا کہ نذر معلق اگر پوری کرلے تو خیر ورنہ کفارۂ قسم ادا کرنا کافی ہے۔ یہی امام محمد (رح) کا قول ہے۔ صاحب ہدایہ اور دوسرے محققین حنفیہ نے کہا ہے کہ کفارۂ قسم امام صاحب (رح) کے نزدیک اس شرط کے وقت کافی ہوگا جس شرط کا تحقق وہ چاہتا نہ ہو ‘ مثلاً یوں کہے کہ اگر میں گھر کے اندر جاؤں یا فلاں شخص سے بات کروں یا فلاں کام کروں تو مجھ پر ایک حج یا ایک سال کے روزے لازم ہیں ‘ اس نذر کو نذر حاج کہا جاتا ہے لیکن اگر شرط ایسی ہے جس کا وقوع وہ خود چاہتا ہے (اور وہ شرط واقع ہوگئی) تو نذر پوری کرنی لازم ہے۔ مثلاً یوں کہا کہ اگر فلاں غائب شخص آجائے یا میرا دشمن مرجائے یا میرا فلاں کام ہوجائے یا میری بیوی کے لڑکا پیدا ہو تو مجھ پر یہ چیز لازم ہے ‘ تو اس صورت میں لامحالہ اس پر وہی چیز ادا کرنی لازم ہوگی جو اس نے مانی ہے ‘ اس نذر کا نام نذر تبرء ہے ‘ اسی تفصیل کے امام احمد بھی قائل ہیں اور ظاہر ترین روایت میں امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول آیا ہے۔ امام شافعی (رح) کا ایک تیسرا قول بھی ایک روایت میں آیا ہے جو ایک روایت میں امام احمد (رح) کی طرف بھی منسوب ہے کہ نذر حاج میں کفارۂ قسم ہی واجب ہے ‘ مانی ہوئی منت ادا کرنی جائز نہیں۔ سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ دو انصاری بھائی کسی میراث کے مشترکاً وارث ہوئے ‘ ایک نے دو سرے سے تقسیم کی خواہش کی۔ اس نے جواب دیا اگر تو نے دوبارہ تقیسم کے لیے کہا تو میرا کل مال کعبہ کے منافع کے لیے ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : کعبہ کو تیرے مال کی ضرورت نہیں۔ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور اپنے بھائی سے کلام کر۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ‘ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ تم پر نہ کوئی قسم پڑے گی ‘ نہ نذر (اگر) خدا کی نافرمانی یا قطع رشتہ داری یا ایسی چیز کے متعلق ہو جس کے تم مالک نہ ہو۔ (ابوداؤد) مسئلہ جس نے خارج از طاقت عبادت کی نذرمانی تو کفارہ دینا جائز ہے۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک کفارہ لازم نہ ہوگا ‘ صرف اللہ سے استغفار کرے۔ ہماری دلیل حضرت ابن عباس ؓ کی وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی کہ جس نے خارج از طاقت چیز کی منت مانی ‘ اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ہے۔ حضرت عقبہ ؓ کی بہن کے قصہ میں بھی آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تیری بہن کے پیدل چلنے کی سخت تھکان سے خدا کو کچھ فائدہ نہیں ‘ وہ سوار ہوجائے اور سوار ہو کر حج کو جائے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔ (ابوداؤد) عبداللہ بن مالک ؓ نے کہا کہ حضرت عقبہ بن عامر نے بیان کیا کہ میری بہن نے برہنہ سر ‘ پیدل چل کر حج کو جانے کی منت مانی تھی ‘ اس کا تذکرہ حضور ﷺ کے سامنے آیا۔ ارشاد فرمایا : اپنی بہن سے کہہ دے کہ سر پر اوڑھنی اوڑھے ‘ سوار ہو اور تین روزے رکھے۔ (ابوداؤد ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی ‘ طحاوی) اختلاف احادیث کو دور کرنے کی توجیہ یہ ہے کہ شاید حضور ﷺ نے کفارہ کا حکم اس وقت دیا جب آپ ﷺ کو معلوم ہوگیا کہ وہ عورت نذر پوری کرنے سے عاجز ہے ‘ واللہ اعلم۔ و یخافون یوما کان شرہ یعنی اس کی برائی ‘ صحاح میں ہے شر وہ چیز ہے جس سے روگردانی کی جاتی ہے (یعنی قابل نفرت چیز) ۔ مستطیرا . بہت زیادہ پھیلی ہوئی۔ اِسْتَطَارَ الْحَرِیْقُ آگ بہت پھیل گئی۔ اِسْتَطَارَ الْفَجْرُ صبح کی روشنی خوب پھیل گئی۔ مقاتل نے کہا : روز قیامت کی شر آسمانوں میں پھیل گئی تو آسمان پھٹ جائیں گے۔ ستارے جھڑ جائیں گے ‘ چاند سورج بےنور ہوجائیں گے۔ ملائکہ پر خوف طاری ہوجائے گا اور زمین پر شر پھیلے گی تو پہاڑ خاک ہو کر اڑ جائیں گے ‘ پانی خشک ہوجائے گا ‘ رُوئے زمین پر جو پہاڑی یا عمارت ہوگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ اس آیت میں مؤمنوں کے عقیدہ کی خوبی اور گناہوں سے پرہیز رکھنے کا اظہار ہے جس طرح آیت : یوفون بالنذر میں اہل ایمان کی ادائیگی فرض کا اظہار تھا۔
Top