Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 12
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئِكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ
اِذْ : جب يُوْحِيْ : وحی بھیجی رَبُّكَ : تیرا رب اِلَى : طرف (کو) الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اَنِّىْ : کہ میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَثَبِّتُوا : تم ثابت رکھو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے سَاُلْقِيْ : عنقریب میں ڈالدوں گا فِيْ : میں قُلُوْبِ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوا : کفر کیا (کافر) الرُّعْبَ : رعب فَاضْرِبُوْا : سو تم ضرب لگاؤ فَوْقَ : اوپر الْاَعْنَاقِ : گردنیں وَاضْرِبُوْا : اور ضرب لگاؤ مِنْهُمْ : ان سے (ان کی) كُلَّ : ہر بَنَانٍ : پور
جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مومنوں کو تسلی دو کہ ثابت قدم رہیں۔ میں ابھی ابھی کافروں کے دلوں میں رعب وہیبت ڈالے دیتا ہوں تو ان کے سر مار (کر) اڑا دو اور ان کا پور پور مار (کر توڑ) دو
اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منھم کل بنان۔ اس وقت کو یاد کرو جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ میں تمہارا ساتھی (یعنی مددگار) ہوں ‘ سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ ‘ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ پس تم ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور پر مارو۔ الملائکۃ سے مراد وہ ملائکہ ہیں جن کو مسلمانوں کی کمک کیلئے بھیجا گیا تھا۔ اَنِّیْ مَعَکُمْیعنی مسلمانوں کی مدد کرنے میں میں تمہارے ساتھ ہوں (حضرت مفسر کی مراد یہ ہے کہ معیت سے جسمانی معیت مراد نہیں ہے بلکہ اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد ہے اللہ کی مدد کا ساتھ ہونا) فَثَبِّتُوْا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یعنی مسلمانوں کے دشمنوں سے لڑ کر مسلمانوں کی جماعت میں اضافہ کر کے اور مسلمانوں کو کامیابی کی بشارت دے کر تم ان کی ہمت بڑھاؤ ‘ ان کو اطمینان خاطر دلاؤ۔ مقاتل کا بیان ہے کہ آدمیوں کے بھیس میں ملائکہ صف کے آگے آگے چلتے تھے اور کہتے تھے : تم کو بشارت ہو کہ اللہ تم کو قطعی طور پر فتحیاب فرمائے گا۔ الرّعبدل کے اندر خوف بھر جانا۔ مراد ہے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا ڈر بیٹھ جانا۔ سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ یہ پورا جملہ گویا اَنِّیْ مَعَکُمْکی تشریح ہے (یعنی میری مدد کی ‘ گویا شکل یہ ہوگی کہ میں کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کی تعداد کو دوگنا چوگنا دکھا کر رعب ڈال دوں گا) ابو نعیم نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے ‘ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا : ابا ! آپ کو ابو الیسر نے کیسے گرفتار کرلیا ؟ اگر آپ چاہتے تو اس کو مٹھی میں پکڑ لیتے (آپ قدآور ‘ جسیم آدمی ہیں اور ابو الیسر ناٹا ‘ ٹھنگنا ‘ مٹھی بھر آدمی ہے) فرمایا : بیٹے ! ایسا نہ کہو ‘ وہ مجھے کوہ خندقہ سے بھی بڑا دکھائی دیتا تھا۔ میں کہتا ہوں : اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ نے قریش کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا تھا۔ فَوْقَ الْاَعْنَاقِیعنی گردنوں سے اوپر والے حصوں میں مارو جیسے سر ‘ حلق وغیرہ۔ عکرمہ نے کہا : فوق الاعناق سے سر مراد ہیں کیونکہ سر گردنوں کے اوپر ہوتے ہیں۔ ضحاک نے کہا : فوق الاعناق سے مراد ہے گردنوں پر۔ فوق بمعنی علٰیہے (گردنوں کے اوپر یعنی گردنوں پر مارو) کُلَّ بَنَانٍیعنی ہر جوڑ پر (عطیہ) یا پور پور پر مارو (حضرت ابن عباس ‘ ابن جریج ‘ ضحاک) بنان ‘ بنانۃ کی جمع ہے ‘ ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے پوروں کو بَنَان کہتے ہیں۔ قاموس میں ہے : بنان انگلیاں یا انگلیوں کے سر۔ آیت کی رفتار بتارہی ہے کہ اِضْرِبَوْاسے ملائکہ کو خطاب ہے ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملائکہ بھی لڑے تھے (صرف مسلمانوں کی تعداد بڑھانے ‘ ان کے دلوں میں اطمینان پیدا کرنے اور کافروں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہی شریک نہیں ہوئے تھے) ابن انباری نے کہا : فرشتے واقف نہ تھے کہ آدمیوں کو کیسے قتل کیا جاتا ہے ‘ اللہ نے فاضربوا فرما کر ان کو بتادیا۔ بخاری ‘ نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ بدر کے د ن جب کہ رسول اللہ ﷺ ڈیرہ کے اندر تھے ‘ آپ نے دعا کی : اے اللہ ! میں تجھے تیری ذمہ داری اور تیرے وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں ‘ اے اللہ ! اگر مسلمانوں کو مغلوب کرنے کی آج تیری مشیت ہوئی تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جاسکے گی۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! بس ‘ آپ اپنے رب کے سامنے خوب زاری کرچکے (حضور ﷺ نے دعاء ختم کردی) اور زرہ پہنے ‘ اچھلتے ہوئے ‘ یہ فرماتے ہوئے ڈیرہ سے باہر آگئے : سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبَرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرُّ اور اللہ نے نازل فرمایا : اِذْتَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ۔ مُرْدِفِیْنَ سے مراد ہیں : پے در پے ‘ ایک کے بعد ایک سلسلہ وار اور فرمایا : اَلَّنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُمِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلاَفٍ مِّنَ الْمَلاَءِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ اور فرشتوں سے فرمایا : اِنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ ۔ مسلم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے ‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس روز ایک مسلمان ‘ ایک مشرک کے تعاقب میں دوڑ رہا تھا۔ مشرک آگے آگے بھاگا جا رہا تھا کہ مسلمان نے اوپر سے کوڑا مارنے کی آواز سنی اور کسی سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا : اقدم حیزوم (حیزوم ! آگے بڑھ) نظر اٹھا کر دیکھا تو مشرک سامنے چت پڑا ہوا دکھائی دیا جس کی ناک ٹوٹ گئی تھی اور چہرہ پھٹ گیا تھا۔ اس مسلمان نے سب کو وہاں جمع کر کے دکھایا۔ ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ عرض کیا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو ‘ وہ (قتل) تیسرے آسمان کے فرشتوں کی کمک نے کیا تھا۔ حاکم اور بیہقی اور ابو نعیم نے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ حضرت سہل بن حنیف نے فرمایا : بدر کے دن ہم میں سے بعض لوگ اپنی تلوار سے مشرک کے سر کی طرف اشارہ ہی کرتے تھے اور تلوار پہنچنے نہ پاتی تھی کہ سر نیچے گرپڑتا تھا۔ بیہقی نے حضرت ربیع بن انس کا بیان نقل کیا ہے کہ گردنوں اور پوروں پر آگ سے جلے ہوئے کی طرح نشان دیکھ کر لوگ پہچان لیتے تھے کہ اس کو کس نے قتل کیا ہے۔ حضرت ابن سعد نے حویطب بن عبدالعزّٰی کا بیان نقل کیا ہے : میں بدر کے موقع پر مشرکوں کی معیت میں موجود تھا۔ میں نے ایک جماعت دیکھی ‘ آسمان و زمین کے درمیان ملائکہ کو دیکھا جو قتل اور قید کر رہے تھے۔ محمد بن عمر اسلمی اور بیہقی نے لکھا ہے کہ حضرت ابو بردہ بن دینار نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تین سر لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ان دو کو میں نے قتل کیا ہے اور تیسرے شخص کو میں نے دیکھا کہ کسی گورے رنگ کے درازقامت شخص نے اس کے تلوار ماری (اور سر اڑا دیا ‘ معلوم نہیں وہ کون شخص تھا) میں نے اس کا سر لے لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس کو قتل کرنے والا فلاں فرشتہ تھا۔ حضرت ابن سعد نے عکرمہ کا بیان نقل کیا ہے : اس روز بعض لوگوں کے سر اڑ کر الگ گر رہے تھے اور معلوم نہ ہوتا تھا کہ کس نے قتل کیا ہے۔ بعض کے ہاتھ کٹ کر الگ گر رہے تھے اور معلوم نہ ہوتا تھا کہ کاٹنے والا کون ہے۔ ابن اسحاق اور بیہقی نے حضرت ابو واقد لیثی کا بیان نقل کیا ہے : میں بدر کے دن ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا لیکن میری تلوار پہنچنے سے پہلے اس کا سر گرپڑا ‘ اس سے میں پہچان لیتا تھا کہ کسی اور نے اس کو قتل کردیا۔ بیہقی نے حضرت خارجہ بن ابراہیم کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل سے دریافت کیا : بدر کے دن اقدم حیزوم کہنے والا کون فرشتہ تھا ؟ حضرت جبرئیل نے فرمایا : تمام آسمان والوں کو میں نہیں پہچانتا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع نے فرمایا : میں عباس بن عبدالمطلب کا غلام تھا۔ اسلام ہمارے گھر والوں کے اندر داخل ہوچکا تھا ‘ اُمّ الفضل مسلمان ہوچکی تھیں اور میں بھی اسلام لے آیا تھا۔ عباس قوم والوں سے ڈرتے تھے اور ان کی مخالفت پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ آدمی بڑے مالدار تھے اور ان کا مال قوم میں (بطور قرض) بٹا ہوا تھا ‘ اسلئے آپ ایمان کو چھپائے ہوئے تھے۔ دشمن خدا ابولہب خود بدر میں شریک نہ ہوا تھا ‘ اپنی جگہ اس نے عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیج دیا تھا۔ جب اس کو بدر کی شکست کی اطلاع ملی تو اللہ نے اس کو ذلیل اور رسوا کردیا اور ہم کو اپنے اندر قوت اور عزت محسوس ہونے لگی۔ میں کمزور آدمی تھا ‘ تیر بنایا کرتا تھا اور زمزم کے حجرہ کے اندر بیٹھا تیر چھیلا کرتا تھا۔ ایک روز حجرہ کے اندر بیٹھا تیر تراش رہا تھا ‘ اُمّ الفضل میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ ابولہب کافر پاؤں کو گھسیٹتا ہوا سامنے سے آگیا اور حجرہ کے بیرونی حصہ میں بیٹھ گیا ‘ اس کی پشت میری پشت کی طرف تھی۔ وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگوں نے کہا : لو ‘ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آگیا۔ ابولہب بولا : بھتیجے ! میرے پاس آؤ ‘ تمہارے پاس ضرور اطلاع ہوگی۔ ابو سفیان اس کے پاس آکر بیٹھ گیا ‘ لوگ کھڑے رہے۔ ابولہب نے کہا : بھتیجے ! بتاؤ کیا ہوا ؟ ابو سفیان نے کہا : کچھ نہیں ‘ خدا کی قسم ! مقابلہ ہوا تو ہم نے اپنے شانے ان کے ہاتھوں میں دے دئیے کہ وہ جیسا چاہیں کریں ‘ ہم کو قتل کریں یا قید کریں اس کے باوجود ‘ خدا کی قسم ! لوگ کبیدہ خاطر نہیں ہوئے مگر ہمارا مقابلہ ایسے گورے رنگ کے لوگوں سے ہوا جو ابلق گھوڑوں پر سوار تھے اور آسمان و زمین کے درمیان (فضا میں) معلق تھے۔ خدا کی قسم ! ان کا اندازہ کسی چیز سے نہیں ہوتا تھا ‘ نہ ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہر سکتی تھی۔ حضرت ابو رافع کا بیان ہے : میں نے یہ سن کر خیمہ کا ایک حصہ (غالباً راوی نے جس کو حجرہ کہا ہے ‘ وہ حجرہ نما ڈیرہ ہوگا جو طنابوں سے بندھا ہوا ہوگا) اپنے ہاتھ سے اٹھا کر کہا : خدا کی قسم ! وہ ملائکہ تھے۔ ابولہب نے ہاتھ اٹھا کر فوراً میرے منہ پر زور سے ضرب لگائی۔ میں اس سے لپٹ گیا ‘ اس نے مجھے اٹھا کر زمین پردے مارا اور اوپر چڑھ کر مجھے مارنے لگا۔ میں کمزور آدمی تھا ‘ اُمّ الفضل نے جو یہ دیکھا تو ڈیرے کی ایک ٹیکی لے کر ابولہب کے زور سے ماری جس سے اس کا سر برے طور پر پھٹ گیا اور بولیں : چونکہ اس کا آقا موجود نہیں ہے ‘ اسلئے تو نے اس کو کمزور سمجھ لیا۔ ابولہب ذلیل ہو کر ‘ منہ پھیر کر چل دیا اور سات راتیں گذرنے نہ پائی تھیں کہ اللہ نے اس کو عدسہ کے مرض میں مبتلا کردیا اور ختم کردیا۔ ابن جریر نے کہا : عدسہ ایک قسم کا پھوڑا ہوتا تھا۔ عرب اس کو منحوس جانتے تھے ‘ ان کا خیال تھا کہ یہ بڑا متعدی مرض ہے۔ ابولہب کو چونکہ عدسہ کا مرض ہوا تھا ‘ اسلئے مرنے کے بعد بھی تین دن تک اس کی اولاد اس سے دور دور ہی رہی۔ کوئی اس کی لاش کے قریب نہ آتا تھا ‘ نہ اس کو دفن کرنے کا قصد کرتا تھا۔ آخر جب بدنامی کا زیادہ اندیشہ ہوا تو ایک گڑھا کھود کر لاٹھیوں کے سہارے لاش کو اٹھا کر اس گڑھے میں ڈال دیا اور دور ہی دور سے پتھروں سے گڑھے کو پاٹ کر لاش کو چھپا دیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یونس بن بکیر کی روایت میں آیا ہے : ابولہب کی لاش کیلئے گڑھا نہیں کھودا گیا تھا بلکہ کسی باغ کی دیوار کے سہارے اس کو ٹکا کر دیوار کی پشت کی جانب سے پتھر پھینک کر لاش کو پتھروں سے چھپا دیا تھا۔
Top