Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
واتقوا فتنۃً لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃً ج اور اس معصیت سے اجتناب کرو جس کا وبال صرف انہی لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا بلکہ ظالم اور غیر ظالم سب کو اس کی مصیبت پہنچے گی۔ لاَّتُّصِیْبَنَّ کی ضمیر فتنہ کی طرف راجع ہے اور فتنہ کے پہنچنے سے مراد ہے فتنہ کا نتیجۂ بد کا پہنچا۔ لاتصیبن نہی کا صیغہ ہے اور یہ فتنہ کی صفت ہے (صفت کا موصوف پر حمل ہوتا ہے مگر نہی انشاء ہے اور انشاء کا حمل نہیں ہوتا ‘ اسلئے) لفظ یقالمحذوف ہے ‘ یعنی ایسی معصیت سے بچو جس سے کہا جائے گا کہ تیرا وبال صرف ظالم کو ہی نہ پہنچے بلکہ ظالم اور غیر ظالم سب کو پہنچے۔ یا نفی کا صیغہ ہے اور چونکہ یہ نفی نہی کے معنی کو متضمن ہے ‘ اسلئے نون ثقیلہ اس پر آگیا ‘ اس وقت مطلب وہ ہوگا جو اول الذکر ترجمہ سے ظاہر ہے۔ فتنہ یعنی معصیت سے مرا دکونسا گناہ ہے ‘ اس کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک مراد ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کسی بدی کو اپنے اندر ٹھہرے نہ دیں ورنہ اللہ ایسے عذاب میں مبتلا کر دے گا جو مجرم اور غیر مجرم سب کو پہنچے گا۔ اس کی تائید حضرت ابوبکر صدیق کے فرمان سے ہو رہی ہے ‘ آپ نے فرمایا : لوگو ! تم آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (مسلمانو ! تم اپنی ذا ت کے مکلف ہو ‘ اگر ہدایت پر ہوئے تو کوئی گمراہ اپنی گمراہی کا ضرر تم کو نہ پہنچا سکے گا) پڑھتے ہو اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے : اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور (باوجود قدرت کے) اس کی گرفت نہ کریں تو بہت ممکن ہے کہ اللہ اپنی طرف سے ان سب پر ایک عمومی عذاب لے آئے۔ یہ حدیث چاروں اصحاب سنن نے نقل کی ہے۔ ترمذی نے اس کو حسن صحیح اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! بھلائی کا حکم دو اور بدی سے روکو اس سے پہلے کہ (ایسا وقت آجائے کہ) تم اللہ سے (اپنے بچاؤ کیلئے) دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ ہو اور گناہوں کی معافی کی درخواست کرو اور گناہ معاف نہ کئے جائیں۔ خوب سمجھ لو کہ بھلائی کا حکم دینا اور بدی سے روک دینا نہ (آنے والے) رزق کو دفع کرتا ہے اور نہ (دیر میں آنے والی) مقررہ موت کو قریب لے آتا ہے (یعنی اس سے نہ مالی مضرت پہنچتی ہے نہ جانی) علماء یہود و نصاریٰ نے جب بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا چھوڑ دیا تو پیغمبروں کی زبانی اللہ نے ان پر لعنت بھیجی ‘ پھر سب کو عمومی عذاب میں مبتلا کردیا۔ رواہ الاصبہانی اس حدیث (کے مضمون) کی تائید حضرت ابن مسعود اور حضرت عائشہ کی روایات سے بھی ہوتی ہے۔ عدی بن عدی کندی کے دادا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ خاص خاص لوگوں کے (برے) عمل کی وجہ سے عمومی عذاب اللہ (نازل) نہیں کرتا ‘ ہاں اگر خاص طبقہ اپنے سامنے بدی ہوتے دیکھے اور اس کو رد کرنے پر قابو بھی رکھتا ہو اور باوجود قابو رکھنے کے رد نہ کرے تو پھر اللہ عام و خاص سب کو عذاب میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ رواہ البغوی فی شرح السنۃ والمعالم حضرت نعمان بن بشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی مقررہ حدود میں سستی کرنے والے اور ان میں داخل ہوجانے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی جہاز میں کچھ لوگ سوار ہوں اور قرعہ اندازی کر کے کچھ زیریں حصہ میں اور کچھ بالائی حصہ میں قیام پذیر ہوں اور زیریں حصہ میں رہنے والا ‘ بالائی حصہ میں رہنے والوں کی طرف سے پانی کا مرور کرے اور پانی کے اس مرور سے ان کو تکلیف ہو ‘ اسلئے نیچے رہنے والا کلہاڑی لے کر جہاز کے نچلے حصہ میں کچھ سوراخ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر اوپر والے کہیں : تم یہ کیا کرتے ہو ؟ سوراخ کرنے والا جواب دے : تم لوگوں کو میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کا مرور بہرحال مجھے کرنا ہی تھا ‘ اسلئے سوراخ کر رہا ہوں۔ اب اگر اوپر والے اس کو سوراخ کرنے سے روک دیں گے تو وہ سوراخ کرنے والا بھی بچ جائے گا اور اوپر والے بھی بچ جائیں گے ورنہ وہ تو ڈوبے گا ہی ‘ ساتھ میں اوپر والے بھی مریں گے۔ رواہ البخاری میں کہتا ہوں : مذکورہ احادیث سے اس امر پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کہ ظالم کے گناہ کا وبال غیرظالم پر بھی پڑتا ہے۔ ان احادیث سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر لوگوں کے سامنے کوئی شخص گناہ کرے اور وہ لوگ اس شخص کو گناہ سے روکنے پر (خواہ ہاتھ سے یا زبان سے) قدرت رکھتے ہوں لیکن نہ روکیں تو ایسی حالت میں اس گناہ کا عذاب عمومی ہوجاتا ہے جو کرنے والے پر بھی پڑتا ہے اور (ممانعت نہ کرنے والے) غیر مجرم پر بھی کیونکہ گناہ سے روکنا فرض ہے اور ایسا نہ کرنے والا ظالم ہے ‘ اسلئے عذاب کا مستحق یہ بھی ہوگیا اور اس پر عذاب ظالم پر ہی عذاب ہوا ‘ غیر مجرم پر عذاب نہ ہوا۔ دیکھو ! اس ساحلی بستی (یعنی ایلیا) کے رہنے والوں نے جب یوم شنبہ کی حرمت قائم رکھنے میں حدود مقررہ سے تجاوز کیا تو ایک گروہ (یعنی تدبیر اور حیلہ سے مچھلیاں تالاب میں قید کرنے والا گروہ) مجرم قرار پایا اور وہ گروہ بھی مبتلائے عذاب ہوا جنہوں نے خود شکار کا جرم نہیں کیا مگر روز شنبہ کی حرمت شکنی سے دوسروں کو نہ روکا۔ باقی تیسرا گروہ جنہوں نے شنبہ کی حرمت شکنی سے بازداشت کی ‘ ان پر عذاب نہیں آیا۔ اللہ نے فرمایا ہے : اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوَ وَاخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابِالخ اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ترک نہی کا عذاب صرف تارک پر پڑا ‘ غیر تارک مبتلائے عذاب نہی ہوئے۔ لیکن آیت زیر تفسیر دلالت کر رہی ہے کہ ایسی مصیبت آئے گی جو ظالم و غیرظالم دونوں کو پہنچے گی (اسلئے اس آیت کی مندرجۂ بالا تشریح غلط ہے) ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ فتنہ سے مراد ہے بغاوت اور ملک کی تخریب و تباہی ‘ اس کا وبال بےقصور لوگوں کو پہنچتا ہے۔ بےقصور لوگ مارے اور لوٹے جاتے ہیں۔ قتادہ نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو دانشمند صحابی سمجھ گئے کہ عنقریب فتنے پیدا ہوں گے ‘ اسی بناء پر ابن زید نے کہا کہ فتنے سے مراد اس جگہ افتراق کلمہ اور آپس کی پھوٹ ہے۔ حسن بصری کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت علی ‘ حضرت عمار ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے حق میں ہوا۔ مطرف کا بیان ہے کہ میں نے حضرت زبیر سے کہا : ابو عبدا اللہ ! آپ نے خود خلیفہ کی مدد نہیں کی جس کے نتیجہ میں وہ شہید کردیئے گئے ‘ پھر خود ہی ان کے خون کا قصاص طلب کرنے لگے۔ حضرت زبیر نے فرمایا : ہم اس آیت کو ایک مدت تک پڑھتے رہے اور نہیں سمجھتے تھے کہ اس آیت کے مصداق ہم ہیں ‘ آخر معلوم ہوا کہ ہم ہی اس آیت میں مراد ہیں۔ آپ کا اشارہ جنگ جمل کی طرف تھا جس روز کہ آپ نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ سدی ‘ ضحاک اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قصہ کی رفتار بتارہی ہے کہ آیت میں فتنہ سے مراد ہے جہاد نہ کرنا ‘ خصوصاً اس زمانہ میں جب امام کی طرف سے مجاہدین میں بھرتی ہونے کا عام اعلان کردیا گیا ہو اور جنگ کے وقت جہاد سے منہ موڑنا بھی مراد ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِھُوْنَ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ ۔ مؤمنوں کا ایک گروہ جہاد کو پسند نہ کرتا تھا اور حق کے معاملہ میں آپ سے جھگڑ رہا تھا۔ دوسری آیت میں یٰٓاَیُّھَا الّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زحفًا فَلاَ تُوْلُّوا ھُمُ الْاَدْبَارَ اے مسلمانو ! جب کافروں سے تمہاری لڑائی اور مڈبھیڑ ہوجائے تو ان کو پیٹھ نہ دو ۔ ایک اور آیت ہے : یٰٓاَیُّھَا الّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کے فرمان کو قبول کرو جب وہ تم کو دعوت دیں۔ ظالم اور مظلوم کو (عمومی) عذاب پہنچنے سے مراد یہ ہے کہ مصیبت سب پر پڑے گی۔ اگر جہاد کو بالکل چھوڑ دیا جائے تو کافروں کا غلبہ ہوجائے گا۔ بچے ‘ بڑے ‘ عورت ‘ مرد سب ہی مسلمان مارے جائیں گے اور ان کا مال لوٹا جائے گا اور میدان جہاد سے منہ پھیر کر بھاگنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو مسلمان میدان میں جم کر لڑتے رہیں گے ‘ وہ (تعداد کی قلت اور مدد کے فقدان کی وجہ سے) شہید کر دئیے جائیں گے۔ دیکھو ! شیطانی اغواء کی وجہ سے جنگ احد میں جب کچھ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو اس کی مصیبت سب ہی مسلمانوں پر پڑی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ مبارک بھی زخمی اور دانت شہید ہوگیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاَتُصِیْبَنَّ (نفی نہ ہو بلکہ) نہی کا صیغہ ہو۔ پہلے فتنہ سے بچنے کا حکم دیا گیا ‘ پھر فتنہ کا ارتکاب کرنے کی ممانعت فرما دی۔ مطلب یہ ہے کہ فتنہ کا وبال صرف ظالم پر خصوصیت کے ساتھ پڑے گا ‘ پس تم فتنہ کا ارتکاب نہ کرو تاکہ ظالم (یعنی تم) پر فتنہ کا وبال نہ پڑے۔ اسی کی تائید بغوی کے قول سے ہوتی ہے کہ لاتصیبن خالص جزاء نہیں ہے (یعنی نفی نہیں ہے) ورنہ اس میں نون نہ آتا (نون ثقیلہ تو صرف نہی پر آتا ہے) بلکہ یہ کلمۂ نہی ہے مگر جزا آمیز۔ اس کی دوسری مثال کیلئے دیکھو اللہ نے فرمایا ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ (چیونٹیوں کے سرگروہ نے کہا :) چیونٹیو ! اپنے گھروں میں گھس جاؤ ‘ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تم کو روند نہ ڈالے۔ یعنی اگر سوراخوں میں گھس نہ جاؤ گی تو سلیمان اور ان کا لشکر تم کو روند ڈالے گا۔ لاتصیبن امر کا جواب نہیں ہوسکتا ‘ اگر جواب قرار دیا جائے گا تو یہ مطلب ہوجائے گا کہ اگر فتنہ سے بچو گے تو وہ فتنہ (یعنی اس کا وبال) صرف تم کو نہیں پہنچے گا ‘ عام لوگوں کو پہنچے گا ‘ یعنی تم کو اور دوسرے لوگوں کو ‘ سب کو عموماً پہنچے گا (خلاصہ یہ کہ عذاب کی خصوصیت تمہارے ساتھ نہ ہوگی) کیونکہ (بقول شیخ عبدالقاہر) مقید کی نفی قید کی نفی ہوتی ہے (مطلق کی نفی نہیں ہوتی ‘ مطلق کیلئے حکم کا ثبوت باقی رہتا ہے) پس بصورت مذکورہ نزول عذاب کی خصوصیت زائل ہوجائے گی ‘ عموم باقی رہے گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ امر کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ فتنہ تم کو پہنچے گا تو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا۔ میں کہتا ہوں : امر کے جواب میں ایک ایسی شرط محذوف ماننی ضروری ہے جو امر سے اخذ کی گئی ہو جیسے اَسْلمِْ تَدْخُلِ الْجَنَّتِہِ اسلام لا ‘ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یعنی اگر اسلام لائے گا تو جنت میں داخل ہوجائے گا ‘ یا آیت ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ اپنے گھروں میں چلی جاؤ (اگر گھروں میں چلی جاؤ گی تو) سلیمان اور ان کا لشکر تم کو پامال نہ کر پائے گا۔ پس آیت مذکورہ میں اِنْ اَصَابَتکُمْکو شرط قرار دے کر محذوف ماننا غلط ہے بلکہ شرط محذوف اور جزاء مذکور سے مل کر جملہ شرطیہ ہو کر فتنہ کی صفت ہوگی ‘ امر کا جواب نہ ہوگا اور مطلب وہ ہوگا جو ہم نے سطور بالا میں بیان کردیا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ لاتصیبن جواب قسم ہے اور قسم محذوف ہے ‘ پورا کلام اس طرح تھا : فتنہ سے بچو ‘ بخدا ! وہ فتنہ تم میں سے صرف ظالموں (یعنی مجرموں) پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ تم سب پر پڑے گا۔ اس کلام کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں جس فتنہ سے بچنے کا حکم ہے ‘ وہ نکرہ ہے اور اس سے آگے لاَتُصِیْبَنَّ میں اس کی ضمیر ہے لہٰذا اس میں بھی عموم ہونا چاہئے ‘ گویا اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ہر گناہ کا وبال مجرم اور غیرمجرم سب پر پڑے گا۔ یہ مطلب خلاف نص بھی ہے اور اجماع علماء بھی اس کے خلاف ہے (ہر گناہ کا وبال سب لوگوں پر پڑنا باتفاق علماء غلط ہے) لاَ تَزِرُوَا زِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی میں صراحت ہے کہ مجرم کا بار غیرمجرم پر نہیں پڑ سکتا ہے۔ لامحالہ یہی ماننا پڑے گا کہ فتنہ سے مراد ترک جہاد اور میدان سے فرار ہے اور دنیا میں ترک جہاد و فرار کی مصیبت عام مسلمانوں پر پڑنا فتنہ پہنچنے سے مراد ہے۔ واعلموا ان اللہ شدید العقاب اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ‘ لہٰذا اللہ کے عذاب کے خوف سے فتنہ سے اجتناب رکھو۔
Top