Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے
واعلموا انما اموالکم واولادکم فتنہلا اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے امتحان کی چیزیں ہیں۔ فتنکا لغوی معنی ہے سونے کو آگ میں تپا کر کندن بنانا۔ امتحان اور جانچ کو اسی مناسبت سے فتنہ کہا جاتا ہے (کہ امتحان سے کھرا کھوٹا ظاہر ہوجاتا ہے) اللہ نے فرمایا ہے : نَبْلُوْکُمْ بالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ۔ فتنہ کا لفظ عذاب کیلئے بھی مستعمل ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَکبھی کفر ‘ گناہ ‘ فساد اور تمام اسباب عذاب پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : واتقوا فتنۃً - اَلاَنِیْ الْفِتْنَۃِ سَقَطُوا الفتنۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔ مال و اولاد ‘ گناہ اور عذاب میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی طرف سے یہ ایک امتحان ہے ‘ اسلئے ان کو فتنہ فرمایا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کا نزول بھی حضرت ابولبابہ ہی کے متعلق ہوا کیونکہ آپ کا مال اور بچے بنی قریظہ کی بستی میں تھے ‘ آپ کو ان کے متعلق اندیشہ تھا۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک بچہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور ﷺ نے اس کو بوسہ دیا اور فرمایا : سنو ! یہ (بچے) کنجوس ہوجانے اور بزدل بن جانے کا سبب ہیں اور یہ اللہ کی رحمت بھی ہیں۔ رواہ البغوی۔ ابویعلی نے حضرت ابو سعید کی روایت سے بیان کیا : اولاد دل کا چین (بھی) ہے اور بزدلی ‘ کنجوسی اور غم کا سبب بھی۔ حاکم نے حضرت خولہ بنت حکیم کی روایت سے بیان کیا کہ اولاد (جنت کے سکھوں میں سے) ایک سکھ ہے۔ وا اللہ اللہ عندہ اجر عظیم۔ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ ان لوگوں کیلئے جو اللہ اور رسول کے خیرخواہ ہوں ‘ امانت ادا کرتے ہوں ‘ حدود کا لحاظ رکھے ہوں اور مال و اولاد کی محبت پر اللہ کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہوں۔
Top