Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)
قل للذین کفروا ان تنتھوا یغفرلھم ما قد سلف ج آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ کفر ‘ عداوت رسول اور قتال سے باز آجائیں گے تو جو کچھ (کفر ‘ فساد اور گناہ ان سے) پہلے ہوچکا ‘ اس کو بخش دیا جائے گا۔ آخر میں کفار میں سے ایک بڑی جماعت اسلام لے آئی۔ ابوسفیان بن حرب ‘ صفوان بن امیہ ‘ عکرمہ بن ابی جہل اور عمرو بن عاص وغیرہ بہت اشخاص مسلمان ہوگئے۔ بدر کے قیدیوں میں سے حضرت عباس بن عبدالمطلب ‘ عقیل بن ابی طالب ‘ نوفل بن حارث ‘ ابو العاص بن ربیع ‘ ابوعزیر بن عمیر عبدری ‘ صائب بن ابی جیش ‘ خالد بن ہشام مخزومی ‘ عبد اللہ بن ابی السائب ‘ مطلب بن خطب ‘ ابو وداعہ سہمی ‘ عبد اللہ بن ابی بن خلف ‘ وہب بن عمیر جمحی ‘ سہیل بن عمر عامری ‘ ام المؤمنین حضرت سودہ کے بھائی عبد اللہ بن زمعہ ‘ قیس بن سائب ‘ امیہ بن خلف کے آزاد کردہ غلام نسطاس۔ سائب بن عبید زر فدیہ ادا کرنے کے بعد مسلمان ہوئے۔ عدی بن خیار فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے۔ ولید بن مغیرہ کو ہشام اور خالد نے گرفتار کرلیا تھا ‘ جب زر فدیہ انہوں نے ادا کردیا اور رہا ہوگئے تو پھر مسلمان ہوگئے۔ لوگوں نے بیوقوف بنایا (کہ مسلمان ہونا ہی تھا تو قید کی حالت میں مسلمان ہوگئے ہوتے ‘ مسلمان ہوتے ہی رہا ہوجاتے۔ زر فدیہ ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ) کہنے لگے : لوگ خیال کرتے ہیں کہ میں قید میں رہنے کے ڈر سے مسلمان ہوگیا ‘ مجھے یہ بات پسند نہ تھی (بلکہ یطیب خاطر برضا ورغبت مسلمان ہونا تھا) آپ مسلمان ہوگئے تو ننھیال والوں نے آپ کو قید کردیا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کیلئے قنوت میں دعاء کیا کرتے تھے۔ آخر چھوٹ گئے اور حضور ﷺ کی وفات کے سال خدمت گرامی میں پہنچ گئے۔ حضرت عمرو بن عاص کا بیان ہے : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : دست مبارک بڑھائیے ‘ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور ﷺ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : عمرو ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا : میں کچھ شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا : پیش کرو ‘ کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا : شرط یہ ہے کہ میرے (گذشتہ) قصور معاف ہوجائیں۔ فرمایا : عمرو ! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام گذشتہ جرائم کو ڈھا دیتا ہے اور ہجرت بھی جو کچھ پہلے ہوچکا ‘ اس کو ڈھا دیتی ہے اور حج بھی سابق باتوں (یعنی گناہوں کو) ڈھا دیتا ہے۔ رواہ مسلم وان یعودوا فقد مضت سنۃ الاولین۔ اور اگر (رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کی طرف) دوبارہ لوٹیں گے تو (کفار) سابقین کے متعلق قانون نافذ ہوچکا ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء کی مخالفت کی ‘ ان کو تباہ کردیا گیا جیسے بدر میں لڑنے والے کافروں کے ساتھ کیا گیا۔ لہٰذا ان لوگوں کو بھی اسی قانون سے ڈرتے رہنا چاہئے۔
Top