Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے
اذ یقول المنافقون (یاد کرو) جب (مدینہ میں) منافق کہہ رہے تھے۔ منافقوں نے دیکھا کہ کچھ اوپر تین سو دس مسلمان مدینہ سے گئے ہیں اور یہ بھی انہوں نے سنا کہ ابوجہل ایک ہزار کی تعداد ساتھ لے کر مسلمانوں سے لڑنے کیلئے مکہ سے روانہ ہوگیا ہے تو منافق کہنے لگے : یہ لوگ مذہبی فریب میں ایسے پھنسے کہ ان لوگوں سے لڑنے چلے ہیں جن سے مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہیں۔ والذین فی قلوبھم مرضٌ اور وہ لوگ بھی کہہ رہے تھے جن کے دلوں میں بیماری تھی۔ یعنی جن کا ایمان خالص اور پختہ نہ تھا ‘ دلوں میں شبہات باقی تھے۔ بعض لوگوں کے نزدیک اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرضٌ سے مشرک مراد ہیں۔ بعض نے کہا : منافق ہی مراد ہیں ‘ لیکن چونکہ ان کے دونوں حال الگ تھے (منافقت بھی اور دلوں میں اسلام کی طرف سے شبہات بھی تھے) اسلئے عطف کردیا گیا (جیسے الی الملک القرم وابن الھمام ولیث الکْتیبۃ فی المزدحم میں ایک ہی بادشاہ مراد ہے ‘ لیکن عظمت ذاتی ‘ شرافت نسب اور شجاعت اس کے مختلف اوصاف تھے ‘ اسلئے عطف کردیا گیا) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ بیمار دل والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہونے کے بعد (ہجرت نہیں کرسکے تھے) کمزوری کی وجہ سے وہیں رہ گئے تھے ‘ ان کے رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کرنے دی تھی۔ جب قریش بدر کو گئے تو جبراً ان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ بدر میں پہنچ کر ان لوگوں نے مسلمانوں کی تعداد کم دیکھی تو (اسلام کی صداقت کی طرف سے) شک میں پڑگئے اور مرتد ہو کر کہنے لگے۔ غر ھؤلآء دینھمط ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے دھوکا دیا۔ یہ سب کے سب جنگ بدر میں مارے گئے۔ قیس بن ولید بن مغیرہ مخزومی ‘ ابوقیس بن فاکہ بن مغیرہ مخزومی ‘ حارث بن زمعہ بن اسود بن مطلب ‘ علی بن امیہ بن خلف جمحی اور عاص بن منبہ بن حجاج انہی لوگوں میں سے تھے۔ طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ بات عتبہ بن ربیعہ اور اس کے ساتھیوں نے کہی تھی جو مشرک تھے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا۔ ومن یتوکل علی اللہ فان اللہ عزیز حکیم۔ اور جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے (وہ ذلیل نہیں ہوتا) پس بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ اپنی حکمت رسا کے زیر اثر ایسا کام کردیتا ہے جس کو عقل بعید سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے اس نے کافروں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ دنیا میں کافروں کے قتل و ہزیمت کا تذکرہ کرنے کے بعد آئندہ آیت میں اس بدانجامی کا ذکر فرمایا جو مرنے کے بعد ان کو پیش آئی۔
Top