Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کرسکتے۔ مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی۔ بےشک وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے
والف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم۔ اور مؤمنوں کے دلوں کو باہم جوڑ دیا۔ اگر زمین کی تمام چیزیں تم خرچ کر ڈالتے تب بھی ان کے دلوں کو نہیں جوڑ سکتے تھے ‘ مگر اللہ ہی نے ان میں الفت پیدا کردی۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ مؤمنوں سے مراد ہیں قبیلۂ اوس و خزرج والے۔ دونوں قبائل میں اتنی عداوت اور کینہ و بغض اور شر و فساد تھا کہ دور ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ سورة آل عمران میں آیا ہے : اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِّہٖ اِخْوَانًا مطلب یہ ہے کہ ان میں باہم اتنی سخت دشمنی تھی کہ روئے زمین کی دولت خرچ کرنے کے بعد بھی ان کے دلوں کو باہم نہیں جوڑا جاسکتا تھا ‘ مگر اللہ نے محض اپنی ہمہ گیر قدرت سے ان کے دلوں کو جوڑ دیا۔ تمام لوگوں کے دل اللہ کی چٹکی میں ہیں ‘ جس طرف چاہتا ہے موڑ دیتا ہے۔ بلاشبہ ایسے غلبہ اور قدرت والا ہے کہ کوئی اس کی مشیت سے اس کو روک نہیں سکتا اور ایسا حکیم ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کو اپنی منشاء کے مطابق کس طرح کرنا چاہئے۔
Top